سپریم کورٹ: توہین مذہب کا ملزم 20 سال بعد بری

سپریم کورٹ آف پاکستان۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کیس میں سزائے موت کے ملزم وجیہہ الحسن کو بری کر دیا ہے۔

عدالت نے فیصلہ سنایا کہ استغاثہ ملزم کے خلاف توہین مذہب کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ توہین مذہب کا الزام ثابت ہونے پر موت کی سزا ہے۔ لیکن اسے ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔

توہین مذہب کے الزام میں موت کی سزا پانے والے ملزم وجیہہ الحسن کو 20 سال کے بعد اس الزام سے بری کیا گیا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

لاہور کے وجیہہ الحسن کو اسماعیل قریشی نامی شخص کی درخواست پر گرفتار کیا گیا تھا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وجیہہ الحسن نے اسے خطوط لکھے تھے جن میں توہین رسالت کی گئی تھی۔

سنہ 1999 میں درج اس مقدمے کی کارروائی ہوئی اور 2002 میں وجیہہ الحسن کو لاہور کی سیشن عدالت نے موت کی سزا سنائی۔

فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جہاں یہ معاملہ آٹھ سال تک زیر سماعت رہا۔ بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے بھی سیشن عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔

وجیہہ الحسن نے اس معاملے پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور 5 سال بعد اس مقدمے کی پہلی سماعت ہوئی۔

متعدد سماعتوں کے بعد 2019 میں اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا۔ وجیہہ الحسن کے وکیل اور مدعی اسماعیل قریشی کے وکیل نے انٹرنیٹ کے ذریعے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ویڈیو لنک پر دلائل دیے۔

سرکاری وکیل امجد رفیق نے بتایا کہ اسماعیل قریشی نے اقبال ٹاؤن تهانے میں وجیہہ الحسن کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ ایف آئی ار میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ملزم نے اپنی کمپنی کے منیجر محمد وسیم اور محمد نوید کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے حسن مرشد مسیح کے نام سے اسماعیل قریشی کو خط لکھے تھے۔ امجد رفیق کا کہنا تھا ملزم نے دونوں گواہان کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ پہلے وہ عیسائی تھا اور بعد میں اس نے قادیانی مذہب اختیار کر لیا تھا۔

مدعی کے وکیل نے کہا کہ مجسٹریٹ کے سامنے ملزم کے ہاتھ کی تحریر لی گئی جو خطوط کی تحریر سے مماثلت رکھتی تھی۔

وجیہہ الحسن کے وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل کو ایک سازش کے تحت اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔ جب کہ مقدمے کے مدعی کو خط اُن کے مؤکل نے نہیں بلکہ حسن مرشد مسیح نامی شخص نے لکھے تھے۔ ہینڈ رائٹنگ ماہر نے امکان ظاہر کیا ہے کہ وجیہہ الحسن کی ہینڈرائٹنگ لکھے گئے خطوط سے مماثلت رکھتی ہے۔ تاہم، اس سے متعلق حتمی رائے نہیں دی گئی۔

بینچ کے سربراہ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ملزم نے یہ نہیں کہا کہ وہ مسلمان ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کو بھی مانتے ہیں۔

عدالت نے سزائے موت کے ملزم وجیہہ الحسن کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔ حالیہ عرصے میں یہ دوسرا کیس ہے جس میں توہین مذہب کے ملزم کو بری کیا گیا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ سال توہین مذہب کے الزام میں سزا پانے والی آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے بری کیا تھا اور اس حوالے سے نظرثانی کی درخواست بھی مسترد کردی گئی تھی، جس کے بعد آسیہ مسیح کو رہا کیا گیا اور وہ اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں۔