|
کراچی -- پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے ملزم کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت پر انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ واقعے کی شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ملزم کی تدفین کے دوران مشتعل افراد نے ڈیڈ باڈی کو جلا دیا۔
تفصیلات کے مطابق عمر کوٹ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں تعینات سرکاری ڈاکٹر شاہ نواز پر الزام تھا کہ اُنہوں نے نے پیغمبرِ اسلام کے یومِ ولادت کے روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے توہینِ مذہب کی تھی۔
واقعے کے بعد عمر کوٹ میں سینکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا اور ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
اس دوران شہر میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے بھی واقعات ہوئے اور بدھ کو ہڑتال کی گئی۔ ہجوم نے ملزم کے گھیراؤ کی بھی کوشش کی جس سے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور ہوٹل میں جا کر چھپ گیا۔
ملزم کے خلاف پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا۔
'پرانی آئی ڈی سے مواد شیئر کیا گیا'
ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ جس آئی ڈی سے مواد شئیر کیا گیا ہے وہ ان کی پرانی آئی ڈی ہے جو اب وہ بالکل استعمال نہیں کرتے۔ بلکہ وہ فیس بک بھی اب استعمال نہیں کرتے۔ ملزم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کو اپنی تفتیش مکمل کرنے دی جائے۔
لیکن دوسری جانب ملزم کی عدم گرفتاری پر احتجاج پرتشدد رنگ اختیار کر گیا اور اس دوران پولیس موبائل کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔
بدھ کی رات پولیس نے ایک کارروائی کے دوران ملزم کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔
ایس پی عمر کوٹ اسد علی چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ سندھڑی پولیس تھانے کی حدود میں پیش آیا۔
پولیس کے مطابق ملزم نے اپنے ساتھی کی مدد سے پولیس پر فائرنگ کی تاہم پولیس کی جوابی فائرنگ سے ملزم موقع پر ہی مارا گیا۔
اس کا دوسرا ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اسد علی چوہدری کا کہنا ہے کہ واقعے کا مقدمے درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے چھ مختلف ٹیمیں کام کر رہی تھیں۔
تاہم حیرت انگیز طور پر پولیس کا کوئی جوان اس واقعے میں زخمی نہیں ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پولیس مقابلے پر سوالات، واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ
دوسری جانب کئی عینی شاہدین جن سے وائس آف امریکہ نے بات کی وہ اس مقابلے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ایک عینی شاہد جس نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ ملزم ڈاکٹر شاہ نواز شاہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ تاہم پولیس حکام کی جانب سے اس کی تردید کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکن اور شاہ نواز کے قریبی ساتھی سوشل میڈیا پر پولیس مقابلے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ ملک میں اس طرح کے واقعات کا تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ ریاست ایسے گروہوں اور ہجوم کی بیخ کنی میں ناکام ہو چکی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ محض الزام لگنے پر ہی لوگ اپنی عدالت لگا لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہجوم کی جانب سے انصاف دیے جانے کا عمل طاہر کرتا ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں پر لوگوں کا اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس کا شکار مسلمان اور غیر مسلم دونوں ہی بن رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ توہینِ مذہب کے حوالے سے ملک میں قوانین موجود ہیں اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
حکام کے مطابق حالیہ عرصے میں توہینِ مذہب کے غلط الزامات لگانے والوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کا تدارک اب ضروری ہو چکا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو اس کی اصل روح کے تحت نافذ کیا جائے۔
ڈاکٹر شاہ نواز نے 2008 میں لیاقت یونی ورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔
ان کا شمار ذہین طلبہ میں ہوتا تھا اور وہ چند سال قبل ہی سرکاری ڈاکٹر تعینات ہوئے تھے۔
علاوہ ازیں مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ایسی ویڈیوز شئیر کی گئی ہیں جن کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز کی لاش کو ان کے گاؤں میں تدفین سے قبل جلا دیا گیا۔
لیکن وائس آف امریکہ ابھی تک ان ویڈیوز کی تصدیق نہیں کرسکا اور پولیس نے بھی اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ادھر عمر کوٹ میں صحافی یاسین سومرو کا کہنا تھا کہ دو روز بعد عمرکوٹ میں حالات معمول پر آ گئے ہیں اور دکانیں اور کاروباری مراکز کھل چکے ہیں۔