ایک ایسےو قت میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف 17 دسمبر کو شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ کی تیاریوں میں مصروف ہے، وہیں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے گرین شرٹس کے اگلے معرکے کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دی ہیں۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم 26 دسمبر کو کراچی میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز کا آغاز کرے گی البتہ اس بار مہمان ٹیم کی قیادت کین ولیمسن کی جگہ فاسٹ بالر ٹم ساؤتھی کریں گے۔
نیوزی لینڈ کرکٹ کے مطابق کین ولیمسن نے ٹیسٹ کپتانی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ اسکواڈ کے اعلان سے قبل کیا تاکہ سلیکٹرز کو ان کا متبادل ڈھونڈنے میں مشکل پیش نہ آئے۔
سال 2021 میں نیوزی لینڈ کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں فتح دلانے والے کین ولیمسن اس مرتبہ بطور بلے باز ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سیریز کا آغاز 26 دسمبر سے ہو رہا ہے، جہاں دونوں ٹیمیں کراچی میں پہلے ٹیسٹ میں مدِمقابل ہوں گی۔
دونوں ٹیموں کےد رمیان دوسرا ٹیسٹ میچ ملتان میں تین جنوری سے کھیلا جائے گا۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنے دورے میں تین ون ڈے میچز بھی کھیلے گی، جس میں امکان ہے کہ ٹیم کی قیادت کین ولیمسن ہی کریں گے۔
سیریز کے تینوں میچز کراچی میں 10 سے 14 جنوری کے درمیان کھیلے جائیں گے۔
’نیوزی لینڈ کی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کسی اعزاز سے کم نہیں‘
کین ولیمسن کا شمار نیوزی لینڈ ہی نہیں دنیا کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے 40 ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی قیادت کی اور 22 ٹیسٹ جیتے، 10 میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کہ آٹھ میچز ڈرا ہوئے۔ ان کی جیت کا تناسب 55 فی صد رہا۔
ولیمسن 40 سے زیادہ ٹیسٹ بطور کپتان کھیلنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں آسٹریلیا کے اسٹیو وا، رکی پونٹنگ اور بھارت کے وراٹ کوہلی کے بعد چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔
ان 22 کامیاب ٹیسٹ میچز میں ان کی بطور بلے باز اوسط 79 رنز فی اننگز رہی جب کہ اس دوران انہوں نے آٹھ سنچریاں بھی اسکور کیں۔ بطور کپتان انہوں نے 40 ٹیسٹ میچوں میں 11 سنچریاں اسکور کیں جو نیوزی لینڈ کے کسی بھی کپتان کی جانب سے ایک ریکارڈ ہے۔
چالیس سے زائد ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کپتانوں میں کین ولیمسن کی بیٹنگ اوسط صرف ویسٹ انڈیز کے برائن لارا سے کم ہے جنہوں نے بحیثیت کپتان 57 اعشاریہ آٹھ تین کی اوسط سے رنز بنائے۔اس دوران ولیمسن کی اوسط 57 اعشاریہ چار تین رہی ۔
ان کے علاوہ نیو زی لینڈ کے کے کپتانوں میں سوائے مارٹن کرو کے کسی اور کھلاڑی کی بطور کپتان اوسط 50 سے زیادہ نہیں رہی ہے۔
کین ولیمسن نے اپنےایک بیان میں کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں قومی ٹیم کی کپتانی ان کےلیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی، ٹیسٹ فارمیٹ میں ٹیم کی قیادت کے چیلنجز سے وہ لطف اندوز بھی ہوئے اور انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
انہوں نےکہا کہ ٹیم کی قیادت کی وجہ سے ان کا ورک لوڈ دگنا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے کپتانی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا، اپنے کریئر کے اس موڑ پر ان کے خیال میں یہ ایک درست فیصلہ ہے۔
کین ولیمسن نے یہاں یہ بھی واضح کیا کہہ وہ صرف ٹیسٹ ٹیم کی قیادت چھوڑ رہے ہیں، وہ بدستور وائٹ بال کے دونوں فارمیٹ میں ٹیم کی قیادت کے لیے دستیاب ہوں گے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ ٹم ساؤتھی اور ٹام لیتھم کی بطور کپتان و نائب کپتان تقرری پربہت خوش ہیں اور انہیں ہر قسم کی سپورٹ دیں گے۔
نیوزی لینڈ کرکٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر ڈیوڈ وائٹ نے بھی کین ولیمسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا شمار نیوزی لینڈ کے گریٹ کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔وہ چاہیں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عرصے تک بلیک کیپس کی نمائندگی کریں۔
ٹم ساؤتھی کے لیے پاکستان کے خلاف قیادت ایک چیلنج کیوں ہوگا؟
ٹمساؤتھی نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں کیوی ٹیم کی 22 بار قیادت کی ہے، جس میں ٹیم نے 13 میچ جیتے اور نو ہارے ہیں۔ لیکن انہیں ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
کین ولیمسن کی غیر موجودگی میں جب بھی متبادل قائد کی ضرورت پڑی تو ٹام لیتھم نے یہ فرض نبھایا ، جو اب ٹم ساؤتھی کے نائب ہوں گے۔
کیوی اسکواڈ جو اگلے ہفتے پاکستان پہنچے گا اس میں ٹم ساؤتھی اور ٹام لیتھم کے علاوہ ڈیون کونوے، میٹ ہنری، ڈیرل مچل، نیل ویگنر اور کین ولیمسن بھی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
گزشتہ سال دورہ بھارت میں ایک ہی اننگ میں 10 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے اعجاز پٹیل بھی اسکواڈ کا حصہ ہوں گے، ان کے ساتھ ساتھ مائیکل بریسویل، ہنری نکولز، گلین فلپس، ایش سودھی اور بلیر ٹکنر کو بھی ٹیسٹ سیریز میں کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔
آل راؤنڈر کائل جیمسن کمر کی انجری کی وجہ سے سلیکشن کے لیےدستیاب نہیں تھے جب کہ ٹرینٹ بولٹ نے سلیکٹرز کو اپنی عدم دستیابی سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔
دورۂ پاکستان کے لیےون ڈے اسکواڈ کا اعلان 19 دسمبر کو کیا جائے گا، امکان ہے کہ کین ولیمسن اس اسکواڈ کے قائد ہوں گے اور انہیں ٹرینٹ بولٹ جیسے تجربے کار بالر کی بھی خدمات حاصل ہوں گی۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے آخری مرتبہ ٹیسٹ کھیلنے کے لیےپاکستان کا دورہ سن 2002 میں کیا تھا جب انضمام الحق نے ان کے خلاف ٹرپل سینچری اسکور کی تھی۔ تاہم اگلے میچ سے قبل کراچی کے ہوٹل میں دھماکے کے بعد انہیں دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس جانا پڑا تھا، جس کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان کوئی ٹیسٹ میچ پاکستانی سرزمین پر نہیں کھیلا گیا۔
البتہ اس واقعے کے اگلے برس نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا ۔ 2003 میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو پانچ میچ کی ون ڈے سیریز میں پانچ صفر سے شکست دی تھی جس کے بعد سے اب تک کیوی ٹیم پاکستان نہیں آئی۔
گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیےنیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان تو آئی تھی لیکن میچ سے چند گھنٹوں قبل ان کی ٹیم سیکیورٹی خدشات کے باعث واپس چلی گئی تھی۔