ہریانہ الیکشن میں بی جے پی کی ہیٹرک، کانگریس کا نتائج تسلیم کرنے سے انکار

ہریانہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی کے کارکن جشن منا رہے ہیں۔

  • حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں میدان مار لیا ہے۔
  • بی جے پی کو 48 جب کہ کانگریس کو 37 نشستیں ملی ہیں۔
  • ماہرین انتخابی نتائج کو بی جے پی کے لیے بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
  • حکومت بنانے کے لیے ہریانہ اسمبلی میں 46 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
  • کانگریس نے انتخابی نتائج تاخیر سے آنے کی شکایت کی ہے۔

بھارت میں حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے ریاست ہریانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں تمام ایگزٹ پولز کو غلط ثابت کرتے ہوئے مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کر لی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاستی اسمبلی کی کل 90 نشستوں میں سے بی جے پی کو 48 اور کانگریس کو 37 نشستیں ملی ہیں۔ حکومت سازی کے لیے 46 نشستوں کی ضرورت تھی۔ تاہم الیکشن کمیشن نے تاحال حتمی نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے۔

کانگریس نے ہریانہ میں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ نتائج مکمل طور پر غیر متوقع، حیرت انگیز اور زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔

پانچ اکتوبر کو پولنگ کے اختتام کے بعد نشر ہونے والے پولز کے نتائج میں کانگریس کو واضح اکثریت اور بی جے پی کو کم سیٹیں ملتی دکھائی گئی تھیں۔ انتخابی مہم کے دوران بھی بی جے پی کے خلاف ماحول نظر آرہا تھا۔

تجزیہ کاروں اور صحافیوں کا خیال تھا کہ بی جے پی کی 10 سالہ حکومت کے خلاف عوامی جذبات اور کسانوں، جاٹوں، پہلوانوں اور نوجوانوں کے ساتھ مبینہ طور پر حکومت کے ناروا سلوک کی وجہ سے بی جے پی کی شکست لازمی ہے۔ لیکن نتائج اس کے برعکس آئے ہیں۔

منگل کی صبح جب ووٹوں کی گنتی کا آغاز ہوا تو دو تین گھنٹے تک آنے والے رجحانات میں کانگریس کو زیادہ اور بی جے پی کو کم سیٹیں ملتی نظر آرہی تھیں۔ لیکن جوں جوں گنتی آگے بڑھی سیٹوں میں فرق کم ہوتا گیا اور بالآخر بی جے پی کانگریس سے آگے نکل گئی۔

ہریانہ کے 1996 میں ریاست بننے کے بعد کوئی بھی پارٹی مسلسل تین بار حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انتخابی مہم کے دوران جاٹ اکثریتی علاقوں میں حکومت کے خلاف زبردست رجحان تھا۔ یہاں تک کہ بعض علاقوں میں بی جے پی امیدواروں کا داخلہ ممنوع تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایک طرف جہاں بی جے پی کے خلاف اور کانگریس کے حق میں جاٹ ووٹ متحد ہوا وہیں دوسری طرف ا س کے جواب میں غیر جاٹ ووٹ بی جے پی کے حق میں متحد ہو گیا۔ بی جے پی نے بھی غیر جاٹ ووٹوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔

البتہ اولمپک پہلوان ونیش پھوگاٹ نے کانگریس کے ٹکٹ پر جولانہ حلقے سے کامیابی حاصل کی۔

دہلی اور پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی کو امید تھی کہ ہریانہ میں اسے کچھ سیٹیں مل جائیں گی. لیکن اس کی کارکردگی انتہائی غیر مؤثر رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسے ایک اعشاریہ سات آٹھ فی صد ووٹ ملا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر کانگریس اور عام آدمی میں انتخابی اتحاد ہو گیا ہوتا تو اپوزیشن کے ’انڈیا‘ بلاک کو زیادہ نشستیں مل جاتیں۔

کانگریس نے دوپہر کے وقت الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی اور کہا کہ وہ انتخابی نتائج اپ ڈیٹ کرنے میں سستی سے کام لے رہا ہے جس کی وجہ سے کنفیوژن پھیل رہا ہے۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش کے مطابق اسی طرح لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر نتائج کو اپ ڈیٹ کرنے میں سستی سے کام لیا جا رہا تھا۔ انھوں نے شبہ ظاہر کیا کہ اس طرح بی جے پی نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہی ہے۔

الیکشن کمیشن نے اس شکایت کو مسترد کر دیا۔ اس نے جے رام رمیش کے میمورنڈم کے جواب میں کہا کہ ہریانہ اور جموں و کشمیر میں ووٹوں کی گنتی قانونی ضابطوں کے مطابق امیدواروں اور مبصرین کی موجودگی میں ہو رہی ہے۔ اس کے مطابق کانگریس کے بے بنیاد الزام کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

بعد ازاں جے رام رمیش نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ہریانہ کے انتخابی نتائج مکمل طور پر غیر متوقع، حیرت انگیز اور زمینی حقائق کے برخلاف ہیں۔ عوام نے ریاست میں تبدیلی کا جو ذہن بنایا تھا یہ نتائج اس کے بھی خلاف ہیں۔ ان حالات میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ان نتائج کو تسلیم کر لیں۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں کم از کم تین اضلاع سے ووٹوں کی گنتی کے عمل اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے سلسلے میں سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ہم نے ہریانہ میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی ہے اور اس سلسلے میں تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔

ان کے بقول ہم ان تفصیلات کو بدھ کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں گے اور کمیشن سے ملاقات کا وقت مانگیں گے۔ انھوں نے بی جے پی کی جیت کو ساز باز کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ کانگریس کے دیگر رہنماؤں نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

بی جے پی نے کانگریس کی شکست کو اس کی اندرونی لڑائی اور دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ اس کے مبینہ سلوک کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی کے مطابق بی جے پی مسلسل تیسری بار عوام کی خدمت کے لیے تیار ہے۔