بھارتی دارالحکومت دہلی کی پولیس نے اتوار کو پارلیمنٹ کے نزدیک جنتر منتر پر ہونے والے ایک پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز اور قابلِ اعتراض نعرے بازی اور تقریروں پر کارروائی کرتے ہوئے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما، سابق ترجمان اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے سمیت چھ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق مذکورہ افراد کو پیر کی رات حراست میں لیا گیا تھا اور منگل کی صبح تک ان سے پوچھ گچھ کا عمل جاری رہا۔ بعد ازاں انہیں منافرت پھیلانے اور 'پینڈمک ایکٹ' کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا۔
مذکورہ دفعات کے تحت گرفتار ہونے والوں کو تین سے چھ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
اشتعال انگیز تقریروں اور نعروں سے متعلق ایک ویڈیو اتوار کو ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی جس میں مسلمانوں کو مارنے، کاٹنے اور ان کے اقتصادی بائیکاٹ کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
ویڈیو میں ''بھارت میں رہنا ہے تو جے شری رام کہنا ہوگا'' اور دیگر نعرے سنے جاسکتے ہیں۔ شرکا میں سے کئی لوگوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ مسلمان 'دس دس شادیاں کرتے اور تیس چالیس بچے پیدا کرتے ہیں اور وہ جلد ہی ملک میں اکثریت میں آجائیں گے۔'
SEE ALSO: بھارت میں حکومت مخالف احتجاج، کانگریس رہنما راہول گاندھی کی سائیکل پر پارلیمنٹ آمدانہوں نے مسلمانوں پر 'آبادی جہاد' کا الزام لگاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت پر قبضہ کرلیا جائے۔
ویڈیو میں نظر آنے والے افراد نے نماز کی ادائیگی کے خلاف بھی بیانات دیے۔ ان کے بقول جہاں مسلمان اکثریت میں آجاتے ہیں وہاں ہندوؤں پر ظلم ہوتا ہے۔
اس مواد پر مشتمل ویڈیو وائرل ہونے کے باوجود مبینہ نعرے بازی کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے پولیس کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے الزام لگایا جا رہا تھا کہ چوں کہ ان لوگوں کا تعلق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے، اس لیے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔
رپورٹس کے مطابق پولیس نے پہلے نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کی۔ بعد ازاں جب اس پر سوال اٹھے تو پولیس نے ویڈیو میں نظر آنے والے اور پروگرام کے منتظم اشونی اپادھیائے سمیت چھ افراد کو حراست میں لیا اور اس کے بعد انہیں باقاعدہ گرفتار کیا گیا۔
'پروگرام کے لیے پولیس سے اجازت نہیں لی گئی'
نئی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس دیپک یادو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ پروگرام کے لیے پولیس سے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔
ان کے بقول، "ہمیں معلوم ہوا کہ جنتر منتر پر کچھ لوگوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں اور قابلِ اعتراض نعرے لگائے۔ اس سلسلے میں ویڈیو بھی موصول ہوئی ہے جس کی بنیاد پر رپورٹ درج کی گئی ہے اور قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔"
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ پروگرام 'سیو انڈیا فاؤنڈیشن' کے زیرِ اہتمام کیا گیا تھا۔ منتظمین کے مطابق اس کا مقصد برطانوی دور کے ان قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا تھا جو بقول ان کے مسلمانوں کو حقوق و اختیارات فراہم کرتے ہیں۔
'قابل اعتراض نعرے منصوبہ بندی کا حصہ ہے'
انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن شبنم ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ 'آر ایس ایس' دہلی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنا چاہتی ہے۔ جنتر منتر پر جو قابلِ اعتراض اور اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے وہ اس کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دہلی کے ایک علاقے دوارکا میں جہاں وہ رہائش پذیر ہیں، مجوزہ حج ہاؤس کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ حالاں کہ وہاں حج ہاؤس کی تعمیر کے لیے 2008 میں ہی سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ مجوزہ حج ہاؤس کی تعمیر کے خلاف کئی مقامات پر دائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے جلسے اور مظاہرے کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ دوارکا 'اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ' کے قریب واقع علاقہ ہے اور مجوزہ حج ہاؤس کے خلاف اب بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
شبنم ہاشمی نے الزام لگایا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ایک منصوبے کے تحت ہندو مسلم منافرت کا ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ملک کو درپیش بڑے چیلنجز سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
SEE ALSO: 'ہندو مسلم اتحاد' سے متعلق آر ایس ایس سربراہ کے بیان پر بھارت میں نئی بحثان کے بقول، صرف جولائی میں 26 لاکھ لوگوں کی ملازمتیں چلی گئیں۔ کرونا وبا کے دوران لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے اور ملکی معیشت تباہ و برباد ہو گئی ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ لوگ ان مسائل پر گفتگو کریں اس لیے مذہبی تفریق کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات کا تعلق اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں آئندہ برس ہونے والے انتخابات سے ہے۔ اس کے علاوہ دہلی میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات بھی ہونا ہیں۔ لہٰذا دہلی کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق حالیہ واقعات کا تعلق 2024 میں ہونے والے انتخابات سے بھی ہے۔
شبنم ہاشمی نے پولیس کی کارروائی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک سوشل میڈیا پر جنتر منتر واقعے کے خلاف احتجاج نہیں کیا گیا اور پولیس پر دباؤ نہیں ڈالا گیا اس وقت تک انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
ان کے بقول دہلی پولیس مرکزی وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرتی ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ اس معاملے میں بی جے پی اور حکومت کی جانب سے پولیس پر دباؤ پڑے گا اور گرفتار افراد کو ضمانت مل جائے گی۔
بی جے پی رہنما نے الزامات مسترد کردیے
البتہ گرفتاری سے قبل اشونی اپادھیائے نے اشتعال انگیز اور قابلِ اعتراض نعرے بازی میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دہلی پولیس میں ایک درخواست دی ہے کہ وہ مذکورہ ویڈیو کی جانچ پڑتال کرے۔ اگر یہ ویڈیو درست ہے تو قصور وار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
ان کے مطابق وہ نعرے بازی کرنے والوں کو نہیں جانتے۔ انہوں نے نہ کبھی انہیں دیکھا نہ ملاقات کی اور نہ ہی انہوں نے ان لوگوں کو پروگرام میں مدعو کیا تھا۔
اشونی اپادھیانے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ویڈیو جعلی ہے تو اس کا ہدف ان کی تحریک 'بھارت جوڑو آندولن' ہے جسے بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
تاہم انہوں نے برطانوی دور کے متعدد قوانین کو ختم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ یہ قوانین بہت کمزور ہیں جس کی وجہ سے مذہبی جنون پھیلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
تنظیم 'بھارت جوڑو آندولن' کی میڈیا انچارج شپرا سری واستو کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام اشونی اپادھیائے کی قیادت میں منعقد ہوا تھا تاہم ان کا اشتعال انگیز نعرے لگانے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔