بلاول بھٹو نے کراچی میں جوشیلی تقریر کے دوران سینئرسیاسی رہنماوٴں کو تنقید کا نشانہ کیا بنایا گویا سیاسی میدان میں ہلچل مچ گئی۔ ن لیگ، تحریک انصاف اور طاہر القادری کی طرف سے تنقید کا جواب
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آئندہ انتخابات میں”شیر کا شکار“ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت خیبر پختونخواہ کو ’سونامی‘ سے نجات دلائے گی۔ اُن کے بقول، ’ایک شخص‘ نے اسلام آباد میں ڈرامہ رچایا اور کئی دن تک شہر کو یرغمال بنائے رکھا۔ موجودہ دورہ حکومت میں بھی ایک شخص نے پورے اسلام آباد کو یرغمال بنایا۔
ان کا اشارہ، پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور بندوق کے ذریعے اپنے مطالبات پولیس تک پہنچانے والے شخص سکندر کی جانب تھا۔
بلاول سانحہ کارساز کے 6 سال مکمل ہونے پر کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کا انداز نہایت جوشیلا تھا۔ ان کے اسی جوشیلے انداز نے غیر اعلانیہ سیاسی جنگ چھیڑ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بیان کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری اور دیگر سیاسی رہنماوٴں کے تند و تیز طعنوں سے پُر رد عمل سامنے آیا۔
مسلم لیگ ن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ”بلاول صرف ویڈیوگیمز میں ہی شیر مار سکتے ہیں۔‘ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو ڈر، ڈر کے تقریریں کرتا ہے اس کی حیثیت ہی کیا ہے، سونامی تو آچکی ہے۔ انہوں نے اپنے رد عمل میں یہ بھی کہا کہ عمران خان کے لئے بزدل کا لفظ استعمال کرنے پر بلاول بھٹو کو شرم آنی چاہیئے۔
تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے جنرل سیکریٹری اور صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کو بچائیں جو زرداری لیگ بنتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کراچی میں امن نہ لا سکی، وہ خیبر پختونخوا کی فکر چھوڑ دیں۔
ادھر پاکستان عوامی تحریک کے رہنما طاہر القادری کا کہنا ہے کہ بلاول جیسے نوزائیدہ کے بیان کی حیثیت چاند پر تھوکنے کے سوا کچھ نہیں، لانگ مارچ کو ڈرامہ قرار دینے والے بلاول کی ساری قیادت اسلام آباد چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔
بلاول، پیپلز پارٹی کا نیا اور ’جواں سال ‘چہرہ
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے 21ستمبر کو 25ویں سالگرہ منائے جانے کے بعد ان کی سیاست میں جس بھرپور انداز سے فعال ہونے کی جو توقع کی جارہی تھی، غالباً اس کا آغاز جمعہ 18اکتوبر سے ہوگیا ہے۔
یہ وہی تاریخ ہے جس دن سابق وزیراعظم اور بلاول کی والدہ بے نظیر بھٹو جلدوطنی کے بعد وطن واپس آرہی تھیں کہ کراچی کے علاقے کارساز کے قریب ان کے قافلے میں دھماکا ہوا اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کا نیا اور ’جواں سال‘ چہرہ ہیں۔ مئی کے انتخابات کے وقت ان کی عمر 25سال نہیں تھی اس لئے وہ اپنی جماعت کے چیئرمین ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکے۔ تاہم 21ستمبر کو انہوں نے 25ویں سالگرہ منائی۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس سالگرہ کے ساتھ ہی بلاول سیاست میں انتہائی فعال ہو جائیں گے اور پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہی، پی پی پی میں بھٹو خاندان کاحقیقی خون پھر سے شامل ہوجائے گا۔
بلاول پارلیمنٹ کا حصہ کس طرح بنیں گے ۔۔۔!!
تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے خیال میں آئندہ چند مہینوں میں انہیں سیاست میں مزید فعال کرنے کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی منتخب شدہ رکن اسمبلی سے استعفیٰ دلا دیا جائے اور ان کی جگہ بلاول کو اسی جگہ سے انتخاب لڑوا کر انہیں رکن اسمبلی بنادیا جائے۔
مقامی میڈیا میں یہ اطلاعات بھی آچکی ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کو سیاست میں فعال کرنے کیلئے این اے224بدین ون سے رکن قومی اسمبلی منتخب کرایا جائے گا۔ تاہم، ان اطلاعات کی تردید یا تصدیق ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے۔
بلاول بلیک بیلٹ ونر ہیں۔۔
بلاول بھٹو 21 ستمبر انیس سو اٹھانوے کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ بے نظیر اور آصف علی زرداری کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد اسلام آباد، دبئی اور پھر یورپ میں زیر تعلیم رہے۔ انہیں مارشل آرٹ کا شوق ہے۔ وہ بلیک بیلٹ ونر ہیں۔
ان کا اشارہ، پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور بندوق کے ذریعے اپنے مطالبات پولیس تک پہنچانے والے شخص سکندر کی جانب تھا۔
بلاول سانحہ کارساز کے 6 سال مکمل ہونے پر کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کا انداز نہایت جوشیلا تھا۔ ان کے اسی جوشیلے انداز نے غیر اعلانیہ سیاسی جنگ چھیڑ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بیان کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری اور دیگر سیاسی رہنماوٴں کے تند و تیز طعنوں سے پُر رد عمل سامنے آیا۔
مسلم لیگ ن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ”بلاول صرف ویڈیوگیمز میں ہی شیر مار سکتے ہیں۔‘ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو ڈر، ڈر کے تقریریں کرتا ہے اس کی حیثیت ہی کیا ہے، سونامی تو آچکی ہے۔ انہوں نے اپنے رد عمل میں یہ بھی کہا کہ عمران خان کے لئے بزدل کا لفظ استعمال کرنے پر بلاول بھٹو کو شرم آنی چاہیئے۔
تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے جنرل سیکریٹری اور صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کو بچائیں جو زرداری لیگ بنتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کراچی میں امن نہ لا سکی، وہ خیبر پختونخوا کی فکر چھوڑ دیں۔
ادھر پاکستان عوامی تحریک کے رہنما طاہر القادری کا کہنا ہے کہ بلاول جیسے نوزائیدہ کے بیان کی حیثیت چاند پر تھوکنے کے سوا کچھ نہیں، لانگ مارچ کو ڈرامہ قرار دینے والے بلاول کی ساری قیادت اسلام آباد چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔
بلاول، پیپلز پارٹی کا نیا اور ’جواں سال ‘چہرہ
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے 21ستمبر کو 25ویں سالگرہ منائے جانے کے بعد ان کی سیاست میں جس بھرپور انداز سے فعال ہونے کی جو توقع کی جارہی تھی، غالباً اس کا آغاز جمعہ 18اکتوبر سے ہوگیا ہے۔
یہ وہی تاریخ ہے جس دن سابق وزیراعظم اور بلاول کی والدہ بے نظیر بھٹو جلدوطنی کے بعد وطن واپس آرہی تھیں کہ کراچی کے علاقے کارساز کے قریب ان کے قافلے میں دھماکا ہوا اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کا نیا اور ’جواں سال‘ چہرہ ہیں۔ مئی کے انتخابات کے وقت ان کی عمر 25سال نہیں تھی اس لئے وہ اپنی جماعت کے چیئرمین ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکے۔ تاہم 21ستمبر کو انہوں نے 25ویں سالگرہ منائی۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس سالگرہ کے ساتھ ہی بلاول سیاست میں انتہائی فعال ہو جائیں گے اور پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہی، پی پی پی میں بھٹو خاندان کاحقیقی خون پھر سے شامل ہوجائے گا۔
بلاول پارلیمنٹ کا حصہ کس طرح بنیں گے ۔۔۔!!
تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے خیال میں آئندہ چند مہینوں میں انہیں سیاست میں مزید فعال کرنے کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی منتخب شدہ رکن اسمبلی سے استعفیٰ دلا دیا جائے اور ان کی جگہ بلاول کو اسی جگہ سے انتخاب لڑوا کر انہیں رکن اسمبلی بنادیا جائے۔
مقامی میڈیا میں یہ اطلاعات بھی آچکی ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کو سیاست میں فعال کرنے کیلئے این اے224بدین ون سے رکن قومی اسمبلی منتخب کرایا جائے گا۔ تاہم، ان اطلاعات کی تردید یا تصدیق ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے۔
بلاول بلیک بیلٹ ونر ہیں۔۔
بلاول بھٹو 21 ستمبر انیس سو اٹھانوے کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ بے نظیر اور آصف علی زرداری کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد اسلام آباد، دبئی اور پھر یورپ میں زیر تعلیم رہے۔ انہیں مارشل آرٹ کا شوق ہے۔ وہ بلیک بیلٹ ونر ہیں۔