نیویارک ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد پر امریکی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پاکستان کے عوام کو یہ پیغام گیا ہے کہ امریکی عوام اور حکومت مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار وائس آف امریکہ کی اقوام متحدہ میں نامہ نگار مارگریٹ بشیر کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو امریکہ سمیت دیگر ممالک سے تعلقات میں’ ری سیٹ‘ یعنی دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے جہاں تعلقات کی بنیاد باہمی احترام اورہم آہنگی پر مبنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر چیلنجز کے لیے تمام دنیا کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی اور پاکستان اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اہم مسائل پر کام کرنے کو تیار ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے امریکی امداد کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان اور امریکہ کے تاریخی تعلقات کو سراہا۔#BilawalBhuttoZardari #UNGA #UNGA2022 pic.twitter.com/1o3koHwm7p
— VOA Urdu (@voaurdu) September 20, 2022
پاکستان کے وزیرخارجہ نے اس خدشے کو رد کیا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ بہتر تعلقات میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ بقول ان کے پاکستان نے ماضی میں بھی امریکہ اور چین کے مابین ایک پل کا کردار ادا کیا ہے اور مستقبل میں بھی وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ایسا کردار ادا کرتا رہے۔ انہوں نے کہا موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل، جن کی وجہ سے پاکستان آج سیلاب کا شکار ہے ، بین الاقوامی سطح پر تب تک حل نہیں ہوسکتے جب تک چین اور امریکہ مل کر کام نہ کریں۔
SEE ALSO: پاک امریکہ رابطوں میں تیزی: 'شہباز حکومت واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتی ہے'ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ چین پاکستان معاشی راہداری پر کام میں سستی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ہمسائے چین کے ساتھ معاشی تعلقات بہتر کرنے پر بہت کام کیا ہے۔ ان کے مطابق معاشی راہداری کے کئی فیز تھے جس میں پہلا ملک کی توانائی کی ضروریات سے نمٹنا تھا۔ آج یہ راہداری ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے اس سوال پر کہ کیا ایس سی او میٹنگ کے دوران روس کی جانب سے یوکرین جنگ کے لیے پاکستان سے رابطہ کیا گیا ہے؟، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان فی الوقت کسی تنازع میں پڑنا نہیں چاہتا۔ ملک کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ سفارت کاری اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔
انہوں نے پاکستان کے دیرینہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ 2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختاری کو ختم کرنے کی وجہ سے ایس سی او میٹنگ میں پاک بھارت رہنماؤں کی ملاقات ممکن نہ ہوسکی۔
SEE ALSO: ممبئی حملوں کے ملزم کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد چین نے ویٹو کر دیانہوں نے کہا کہ کشمیر سمیت تمام بین الاقوامی تنازعات کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں اور بین الاقوامی قوانین کو یکساں لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ بقول ان کے جب کئی ممالک اور ادارے اس معاملے میں من مرضی کے فیصلے لیتے ہیں تو ہر دفعہ ہر ملک کے کی حمایت میں کھڑا ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے ثقافتی رابطوں اوراقتصادی،تجارتی اورتوانائی سمیت وسیع شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید گہرا اور وسیع کرنے پر اتفاق کیا #UNGA pic.twitter.com/Y9LD6v6eXt
— VOA Urdu (@voaurdu) September 20, 2022
افغانستان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی عبوری حکومت سے رابطے میں ہے اور ہمارے لیے یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ بین الاقوامی برادری بھی ان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے درست اقدامات اٹھائے تاکہ یہ عمل آگے بڑھ سکے۔