بلاول: خاردار راہ کے مسافر، 2018کا انتخاب کڑا امتحان ہوگا

پاکستان میں آئندہ مہینوں بعد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے اپنے سیاسی خانوادے کو پہلے کی سی آب وتاب سے بحال کرنا اور پروان چڑھانا اس 29 سالہ آکسفرڈ کے تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے مشکل ہے خصوصا ً ایسی صورتحال میں جب ان کے پاس کبھی کوئی سیاسی عہدہ رکھنے کا تجربہ بھی نہ ہو۔

پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹوکے قتل کے ایک عشرے بعد ان کے بیٹے بلاول بھٹو اپنی ماں کی سیاسی میراث کو سنبھالنے اور آگے لے جانے کی کوششوں اورجدوجہد میں مصروف ہیں۔یہ بالکل شکسپئیر کے کسی ڈرامے کا منظر دکھائی دیتا ہے جس میں ٹریجڈی بھی ہے اختیار اور طاقت بھی۔

اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں آئندہ مہینوں بعد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے اپنے سیاسی خانوادے کو پہلے کی سی آب وتاب سے بحال کرنا اور پروان چڑھانا اس 29 سالہ آکسفرڈ کے تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے مشکل ہے خصوصا ً ایسی صورتحال میں کہ جب ان کے پاس کبھی کوئی سیاسی عہدہ رکھنے کا تجربہ بھی نہ ہو۔

بلاول بھٹو زرداری کا خاندان کسی زمانے میں پاکستانی سیاست پرچھایا ہوا تھا۔ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) قائم کی اور ملک کے سب سے اعلی ترین عہدے وزارت اعظمیٰ تک پہنچے۔

بلاول کی والدہ بینظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم بنیں اور تیسری بار بھی وزیراعظم بننے کی امیدوار تھیں کہ انہیں 27دسمبر2007 کو بم حملے اور فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔

بینظیر کی موت کے بعد سے پی پی پی کی قسمت ہچکولے کھاتی رہی۔کم لوگ بلاول بھٹو زرداری کو بطور سیاسی لیڈر دیکھ رہے تھے لیکن اب وہ پارٹی کے چیئرمین ہیں۔

گزشتہ دنوں بلاول نے پی پی پی کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں اسلام آباد میں ہوئے جلسے میں اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی طرح جوش و خروش اور جذبے سے مخالفین ،پاکستان دشمن طاقتوں اور شدت پسندوں کو للکارا اور اسٹیبلشمنٹ پرتنقید کی۔

لیکن عوامی اسٹیج سے ہٹ کر بلاول شرمیلے ہیں ۔کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع اپنے گھر’ بلاول ہاؤس‘ میں فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت میں بلاول کا کہنا تھا’ میری والدہ کہا کرتی تھیں کہ انہوں نے زندگی کو نہیں چنا بلکہ زندگی نے انہیں چنا ہے۔بالکل یہی بات مجھ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اگرمیرے خاندان کے لوگ قتل نہیں کئے جاتے تو میری والدہ وزارت خارجہ میں ہوتیں اورمیں اب بھی ایک طالب علم ہوتا۔‘

بڑی توقعات
پچاس سال قبل بلاول بھٹو زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سندھ میں پی پی پی کی بنیاد رکھی۔ ان کے دئیے گئے نعرے ’روٹی، کپڑا، مکان‘ نے جاگیرداروں کی بنائی پارٹی کو پاکستان کی پہلی مقبول عوامی جماعت میں تبدیل کردیا۔

بلاول نے اپنے نانا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہر پاکستانی کو ایک فخر کا احساس دیا ۔‘

لیکن جنرل ضیاالحق نے فوجی بغاوت کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے محروم کیا بلکہ 1979 میں عالمی دباؤ اور تنقید کے باوجود اُنہیں پھانسی دے دی۔

جنرل ضیا کی 1988میں موت کے بعد بینظیر بھٹو 35 سال کی عمر میں پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ بینظیر بھٹو کی حکومت کو فوجی مداخلت اور کرپشن کے الزامات کا سامنا رہا اور دو مرتبہ وزیراعظم بننے کے باوجود ایک بار بھی وہ بطور وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکیں۔

سن 1996 میں حکومت سے معزولی کے بعد صدر پرویز مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کے عرصے میں بینظیر زیادہ تر خودساختہ جلاوطن رہیں اور 2007 میں الیکشن میں حصہ لینے واپس پاکستان آئیں لیکن پاکستان آمد کے کچھ ہی ہفتوں بعد ان کے قتل نے تمام امیدوں کو بکھیر دیا۔ بینظیر کے قتل کا ذمہ دار شدت پسندوں کو ٹھہرایا گیا۔

سینٹر فورساؤتھ ایشین اسٹڈیز،ٹفٹس یونیورسٹی کی عائشہ جلا ل کا کہنا تھا کہ یہ ان تمام لوگوں کے لئے بڑا دھچکہ تھا جو ایک مختلف پاکستان کی آس لگائے بیٹھے تھے۔

بلاول بھٹو کو ان کی والدہ کی موت کے بعد پی پی پی کا چیئرمین نامزد کیا گیا لیکن وہ زیرتعلیم تھے اس لئے آکسفرڈ واپس چلے گئے۔

بلاول کے والد آصف علی زرداری نے 2008 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پارٹی کا کنٹرول سنبھالا ۔ پارٹی ذرائع کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ بلاول اپنی مرحوم والدہ کی سندھ کی پرانی نشست سے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں حصہ لیں گے۔

بلاول نے اپنی سیکورٹی کے حوالے سے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم خوفزدہ ہونے والوں میں سے نہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاول کے گرد موجود پروٹیکشن،ان کا اعلیٰ طبقاتی اسٹیٹس اور زیادہ تر وقت بیرون ملک گزارنا ووٹرز کو ان سے دور کررہا ہے۔

بلاول نے اے ایف پی سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ وہ تنہا ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بلاول کو 2018 کے الیکشن کی صورت میں ایک مشکل ہدف کا سامنا ہے کیونکہ سابق کرکٹر اور سیاستدان عمران خان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور اقتدار سے ہٹائے جانے والے وزیراعظم نواز شریف بھی اچھی خاصی سپورٹ رکھتے ہیں۔

بہت سے پاکستانی خاندانی یا مورثی سیاست کے مخالف ہیں ۔کراچی کے رہائشی صفدر ذوالفقار کے بقول خاندانی سیاست میں جمہوریت سپرد خاک ہو جاتی ہے۔

لیکن پی پی پی کی گولڈن جوبلی میں شرکت کرنے والو ں کو پارٹی کی ترقی پسندانہ اپروچ سے بڑی امیدیں ہیں۔ عاصمہ جیلانی 52 سال کی ہیں اور اس وقت سے پی پی کی سپورٹر ہیں جب اپنے بچپن میں انہوں نے پہلی بار ریڈیو پر ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر سنی تھی۔

وہ اس وقت وہیں موجود تھیں جب بینظیر کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔عاصمہ کی دھماکے کے باعث سماعت متاثر ہوئی تھی۔