مولانا فضل الرحمٰن سے بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات؛ کیا اپوزیشن جماعتیں پھر متحد ہو رہی ہیں؟

پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی سے متعلق ایک سوال پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات میں اس بارے کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمعے کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے۔

یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت حکومت کو دو قوانین کی پارلیمنٹ سے منظوری میں شکست دی۔

پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم نے حکومت کی جانب سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی متفقہ حکمتِ عملی پر بھی اتفاق کیا تھا۔ یہ اجلاس انتخابی اصلاحات کی قانون سازی کے لیے بلایا گیا تھا۔

متحدہ اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی میں قانون سازی میں شکست اور اتحادی جماعتوں کے تحفظات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو مشترکہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔

’پارلیمان میں مشترکہ حکمتِ عملی سے حکومت ناکام ہوئی‘

ملاقات کے بعد اگرچہ دونوں رہنماؤں نے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی پر گفتگو نہیں کی۔ مبصرین بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی اس ملاقات کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے باہمی اختلافات کے خاتمے اور حکومت مخالف اتحاد کے بحال ہونے کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف کی پارلیمنٹ میں مشترکہ حکمتِ عملی کے نتیجے میں حکومت کو ناکامی ہوئی اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی ملتوی کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے مشترکہ اجلاس کے ذریعے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرانے کی کوشش کی تو دوبارہ شکست دی جائے گی۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کا مشترکہ اجلاس جمعرات کو بلایا گیا تھا جس میں حکومت کے مطابق انتخابی اصلاحات سمیت متعدد قانونی بل منظوری کے لیے پیش کیے جانے تھے۔ بعد ازاں حکومت نے یہ مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔

’جمہوری انداز میں ہی چلتے ہوئے حکومت کا خاتمہ کر سکتے ہیں‘

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جمہوری روایات کے ذریعے حکومت کو نقصان پہنچایا ہے اور جمہوری انداز میں ہی چلتے ہوئے حکومت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

تاہم پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ملاقات میں اس بارے کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔

Your browser doesn’t support HTML5

'ملک میں آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے'

پیپلز پارٹی نے رواں سال اپریل میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم سے علیحدگی کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب اتحاد کی جانب سے ان کی جماعت سے سینیٹ انتخابات میں حکومتی اتحادی جماعت سے ووٹ لینے پر وضاحت مانگی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے پی ڈی ایم کی جانب سے شوکاز نوٹس پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔

دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے انتخابی اصلاحات کے قانونی بل پر اتفاق رائے کے لیے قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مشاورتی عمل کو بحال کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جامع فیصلہ سازی وقت کی اہم ضرورت ہے اور زیر التوا قوانین پر مشاوراتی عمل کا آغاز کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانونی اصلاحات پر پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر اتفاق رائے کیا جانا چاہیے۔

اس سے قبل متحدہ حزبِ اختلاف کی پارلیمنٹ میں اسٹیئرنگ کمیٹی نے اسپیکر اسد قیصر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تحریری طور پر بات چیت کی شرائط دیں جس میں یہ دو ٹوک بیان ہونا چاہیے کہ یہ حکومت ہی تھی جو اپوزیشن سے بات چیت کے لیے رابطہ کر رہی ہے۔

پارلیمنٹ کے اجلاس کو ملتوی کرنے اور اتحادی جماعتوں کے انتخابی اصلاحات بل پر تحفظات پر مشارت کے لیے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بھی اسلام آباد میں طلب کیا جس کی صدارت وزیرِ اعظم عمران خان نے کی۔

اجلاس میں وزیرِ اعظم اہم قومی اور سیاسی امور پر پارٹی کی کور کمیٹی کے اراکین کو اعتماد میں لیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اراکین کو حکومت کے طلب کیے گئے پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس کو مؤخر کرنے پر بھی اعتماد میں لیا۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت انتخابی اصلاحات کے ذریعے ملک میں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر حزبِ اختلاف سے اتفاق رائے چاہتے ہیں جس کے لیے مشترکہ اجلاس کو ملتوی کیا ہے۔