"میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ جو لوگ نیچے دیے گئے اکاؤنٹ میں بٹ کوائن جمع کرائیں گے، ان کی رقم دو گنا کر کے واپس لوٹائی جائے گی۔ آپ ایک ہزار ڈالر بھیجیں گے تو میں دو ہزار ڈالر واپس کروں گا۔ یہ پیشکش صرف 30 منٹ کے لیے ہے۔"
یہ وہ پیغام تھا جو امریکہ میں بدھ کی سہہ پہر 4 بج کر 27 منٹ پر ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے ارب پتی مالک ایلون مسک کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر نمودار ہوا۔ یہ آفیشل اکاؤنٹ ہے جس کے 3 کروڑ 69 لاکھ فالوورز ہیں۔ اس پر 'بلو ٹک' لگا ہوا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ شک کی کوئی گنجائش نہیں۔
کرونا وائرس کی وبا عروج پر ہے اور کاروبار بند ہے۔ کروڑوں افراد بے روزگار ہیں۔ ان حالات میں کوئی ارب پتی آپ کی مدد کرنا چاہے تو اس میں تعجب کی بات نہیں۔ زندگی میں ایک بار جمع پونجی دو گنا ہونے کی امید ہو اور موقع بھی صرف آدھ گھنٹے کا ہو تو بہت سے لوگ ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔
بس پھر یہ ہوا ایلون مسک پر اعتبار کرنے والوں نے رقم بھیجنا شروع کر دی۔ چند منٹ بعد مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس کے آفیشل اکاؤنٹ سے بھی ایسا ہی ٹوئٹ پوسٹ کیا گیا۔ کچھ لوگ سمجھے کہ شاید دو ارب پتی افراد میں مقابلے بازی شروع ہو گئی ہے۔ لیکن پھر وہی پیغام دوسرے مشاہیر کے اکاؤنٹس پر بھی نظر آنے لگا۔
بہت جلد یہ واضح ہو گیا کہ ایلون مسک، بل گیٹس اور کئی اور اہم شخصیات کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیک کر لیے گئے ہیں۔
ٹوئٹر کی انتظامیہ کو علم ہوا تو اس نے مشکوک پیغامات کو ہٹا دیا، لیکن لوگوں نے دیکھا کہ وہی پیغام دوبارہ پوسٹ کیا گیا۔ دوسری بار ڈیلیٹ کیا گیا تو تیسری بار ظاہر ہوا۔ اس کا مطلب تھا کہ ٹوئٹر انتظامیہ ہیک کیے گئے اکاؤنٹس کو ہیکرز سے چھیننے میں کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔
شام 6 بجے ٹوئٹر انتظامیہ نے 'بلو ٹک' والے تمام اکاؤنٹس پر تالا لگا دیا۔ اس کے بعد ان اکاؤنٹس سے نہ ٹوئٹ کیا جاسکتا تھا اور نہ پاس ورڈ بدلا جاسکتا تھا۔ یہ اقدام ان اکاؤنٹس کو محفوظ بنانے کے لیے کیا گیا۔ اس کے علاوہ بٹ کوائن کے ایڈریس پوسٹ کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ڈھائی گھنٹے بعد ٹوئٹ کرنے کی سہولت بحال کر دی گئی۔
ٹوئٹر اکاؤنٹس ہیک کیے جانے کی خبر کچھ دیر میں عام ہوگئی۔ لیکن شام 7 بجے تک نادان لوگ 300 ٹرانزیکشنز کے ذریعے ایک لاکھ 18 ہزار ڈالرز ہیکرز کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر چکے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رقم کو واپس حاصل کرنا ناممکن ہے اور اس کا پیچھا کر کے ہیکرز کو پکڑنا بہت مشکل ہے۔
اس واقعے سے ایک طرف ٹوئٹر کی ساکھ متاثر ہوئی اور اسٹاک مارکیٹ میں اس کے حصص کی قیمت بھی 3 فی صد گر گئی۔
کس کس کے اکاؤنٹ ہیک کیے گئے؟
جن لوگوں کے اکاؤنٹ ہیک کیے گئے ان میں ایلون مسک اور بل گیٹس کے علاوہ سابق صدر براک اوباما، ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن، امیزون کے مالک جیف بیزوس، ارب پتی وارن بوفے، میڈیا ٹائیکون مائیکل بلوم برگ، گلوکار کانیے ویسٹ اور ان کی اہلیہ ریئلٹی ٹی وی اسٹار کم کارڈیشیئن شامل ہیں۔ ایلون مسک کی کمپنیوں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے علاوہ ایپل اور اوبر کے اکاؤنٹ بھی ہیک کیے گئے۔
جو اکاؤنٹ ہیک کیے گئے، ان تمام کے فالوورز کی مجموعی تعداد 35 کروڑ بنتی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہیکرز کو کتنی بڑی آڈیئنس میسر آگئی تھی۔ اس کا انھوں نے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
جو بائیڈن کے ترجمان نے کہا کہ اکاؤنٹ ہیک کیے جانے کے چند منٹ بعد ٹوئٹ ڈیلیٹ کرکے اسے لاک کردیا گیا تھا۔ بل گیٹس کے ترجمان نے کہا کہ یہ کوئی بڑا گھپلا ہے جس کا ٹوئٹر کو سامنا ہے۔
بہت سے لوگوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ پر حملہ نہیں ہوا حالانکہ وہ بہت زیادہ ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں، اہم ترین رہنما ہیں اور ارب پتی بھی ہیں۔
ہیکرز کون ہوسکتے ہیں؟
ماہرین کا خیال ہے کہ اس کام میں ایک سے زیادہ ہیکرز ملوث ہوسکتے ہیں، کیونکہ جتنی تیزی سے اکاؤنٹس ہیک کیے گئے ہیں، یہ ایک آدمی کا کام معلوم نہیں ہوتا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق کم از کم ایک ہیکر نے جس ای میل کو استعمال کیا اس کا ایڈرس mkeyworth5@gmail.com ہے اور کچھ ہیک ٹوئٹس ویب سائٹ کرپٹو فور ہیلتھ ڈوٹ کوم کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ اس ویب سائٹ کی رجسٹریشن کروانے والے کا نام انتھونی ایلیئس ہے۔ ممکن ہے کہ یہ جعلی نام ہو اور ہیکرز دھوکا دینے کے لیے اس ویب سائٹ کو پیش کررہے ہوں، کیونکہ وہ اتنے بے وقوف نہیں لگتے کہ اتنے آرام سے نشانی چھوڑ دیں۔ اسی نام سے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر درج ہے کہ یہ ہم ہیں۔ یہ حملہ فلاحی مقاصد سے تھا۔ آپ کی رقم درست مقام تک پہنچ جائے گی۔
بٹ کوائن کیا ہے؟
ہیکرز نے کسی بینک اکاؤنٹ کے بجائے لوگوں سے بٹ کوائن میں رقوم کا مطالبہ کیا۔ بٹ کوائن انٹرنیٹ کی کرنسی ہے جس پر کسی ادارے کا اختیار نہیں۔ اسی لیے جعلساز اس کرنسی میں لین دین کرتے ہیں کیونکہ ان کا تعاقب کرنا اور رقم واپس حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا۔
بٹ کوائن کو 2009 میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن اب سیکڑوں دوسری ورچوئل کرنسیاں میدان میں آچکی ہیں۔ ان کرنسیوں کی قدر ان کی طلب اور رسد کے مطابق گھٹتی بڑھتی ہے۔
جمعرات کو ایک بٹ کوائن کی قیمت 9115 ڈالر کے مساوی تھی۔ 2017 میں ایک وقت ایسا تھا کہ اس کی قیمت ساڑھے 19 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور اسے سرمایہ کاری کے لیے بہترین سمجھا جاتا تھا۔ لیکن قدر میں تیزی سے کمی بیشی نے اس کی ساکھ خراب کی ہے۔
ٹوئٹر کا موقف کیا ہے؟
سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا کہنا ہے کہ اس کے سسٹم پر منظم حملہ کیا گیا۔ ہیکرز نے اس کے کئی ملازمین کو ہدف بنا کر ٹوئٹر کے اندرونی نظام تک رسائی حاصل کی۔ اب اس اندرونی نظام تک رسائی کو محدود کردیا گیا ہے۔
ٹوئٹر کے بانی جیف ڈورسے نے کہا کہ یہ ہمارے لیے مشکل دن تھا۔ ہمیں یہ سب کچھ ہونے پر بہت دکھ ہے۔ ہمارے ماہرین وجہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور جب علم ہوجائے گا تو سب کچھ بتائیں گے۔
یہ بات اہم ہے کہ جیف ڈورسے کا اپنا اکاؤنٹ گزشتہ سال ہیک کرلیا گیا تھا۔ اسے 20 منٹ میں واپس چھین لیا گیا تھا لیکن اس حملے پر بھی ٹوئٹر کو تنقید اور مذاق کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد کمپنی نے کہا تھا کہ ڈورسے کے اکاؤنٹ کو آئندہ کے لیے محفوظ بنا لیا گیا ہے۔
2017 میں کمپنی کے ایک ناراض ملازم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کردیا تھا، لیکن اسے چند منٹ میں بحال کر دیا گیا تھا۔
حکومتوں اور ماہرین کا ردعمل کیا ہے؟
مشاہیر کے اکاؤنٹ ہیک کیے جانے پر سرکاری حکام اور ماہرین نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ امریکی سینیٹر جوش ہولے نے ٹوئٹر پر زور دیا کہ وہ اپنے پلیٹ فارم کو محفوظ بنانے کے لیے محکمہ انصاف اور ایف بی آئی کے ساتھ تعاون کرے۔ برطانیہ کے نیشنل سائبر سیکورٹی سینٹر نے کہا کہ اس نے ٹوئٹر سے رابطہ کیا ہے۔ یہ کچھ افراد پر نہیں بلکہ کمپنی پر حملہ تھا۔ سینٹر نے لوگوں کو خبردار کیا کہ سوشل میڈیا پر رقم یا حساس معلومات طلب کرنے والوں سے ہوشیار رہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کے سائبر سربراہ ولیم ڈکسن نے کہا کہ اس حملے کے نتیجے میں ٹوئٹر نے اپنی ساکھ کھوئی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کی تاریخ میں بدترین حملہ ہے۔
سائبر سیکورٹی کمپنی مائیکل گیزلی کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کو دوبارہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ یہ سوال کیا جاتا رہے گا کہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں سے ایک کی سیکورٹی اتنی کمزور کیوں تھی؟
سوشل پروف سیکورٹی کی سربراہ ریشل ٹوبیک نے کہا کہ مستقبل میں اس طرح کے حملوں کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اگر کسی عالمی رہنما کا اکاؤنٹ ہیک ہوجائے اور اس پر دوسرے ملک کو دھمکیاں دی جائیں تو کیا ہوگا؟
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس حملے کے باعث ساکھ کم ہونے کے علاوہ ٹوئٹر کو قانونی کارروائی کا سامنا بھی کرسکتا ہے، کیونکہ وہ اپنے صارفین کے اکاؤنٹس کے تحفظ کا ذمے دار ہے۔