افغان صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ جمعے کو امریکہ کا دورہ کریں گے جہاں وہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے اتوار کو کہا ہے کہ صدر بائیڈن افغان قیادت کو امریکہ کی جانب سے سفارتی، معاشی اور انسان دوست تعاون کا یقین دلائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے فوج کی واپسی کا عمل جاری ہے اور ایسے میں صدر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورۂ امریکہ میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے معاملات کو اجاگر کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ صدر بائیڈن اور افغان قیادت کے درمیان یہ پہلی براہِ راست ملاقات ایسے موقع پر ہو گی جب طالبان کی افغانستان میں کارروائیوں میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جاری امن مذاکرات کی مکمل حمایت کرتا ہے اور تمام افغان فریقین کو تنازع کے حل کے لیے بات چیت کے عمل کا حصہ بننے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
جین ساکی کا کہنا تھا کہ امریکہ افغان حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بن سکے۔
دوسری جانب افغان صدر کے دفتر کی جانب سے فوری طور پر دورۂ امریکہ کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا یکم مئی سے شروع ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ وہیں افغان طالبان اور مقامی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
SEE ALSO: لڑائی، حملے، مذمتیں، مذاکرات، افغانستان میں ہو کیا رہا ہے؟حالیہ چند ہفتوں کے دوران طالبان جنگجوؤں نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔
اسی اثنا میں ہفتے کو صدر غنی نے طالبان سے جھڑپوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت اور اعلیٰ سطح پر رابطوں میں تعاون میں کمی پر ہونے والی تنقید کے بعد فوج کے سربراہ، وزیرِ دفاع اور وزیرِ داخلہ کو تبدیل کر دیا ہے۔
صدر غنی کے اقدامات کے باوجود اتوار کو باغیوں کی جانب سے علاقوں پر قبضوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
افغان انسٹی ٹیوٹ آف وار اینڈ پیس اسٹیڈیز کے ایگزیکٹو چیئرمین تمیم عاصی کے مطابق ان حالات میں صدر غنی کا دورۂ امریکہ سیاسی طور پر ان کی حکومت کے لیے حوصلہ افزا ہو گا۔
ان کے بقول، اس دورے کا اعلان ایسے موقع پر ہوا ہے جب افغان سیاسی اور فوجی رہنما خود کو امریکہ سے دور ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تمیم عاصی نے کہا کہ افغان قیادت کے دورۂ امریکہ کا ایجنڈا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہو گا جس میں امریکہ کی افغان سیکیورٹی فورسز اور امن عمل کی حمایت شامل ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ کمزور قیادت اور بدانتظامی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے افغان سیکیورٹی کے شعبے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور طالبان کو کئی علاقوں پر قبضے کا موقع ملا۔
تمیم عاصی نے مزید کہا کہ امریکی فورسز کا جلد بازی میں انخلا افغان نیشنل آرمی کے مورال، انٹیلی جنس انفراسٹرکچر اور وسائل پر اثر انداز ہو گا۔
واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج کو رواں برس افغانستان سے انخلا کرنا ہے۔ معاہدے کے تحت طالبان نے ضمانت دی ہے کہ وہ انخلا کے دوران غیر ملکی افواج کو نشانہ نہیں بنائیں گے اور عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں سے نہ تو رابطے رکھیں گے اور نہ ہی انہیں افغانستان میں پنپنے دیں گے۔