امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انھوں نے نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی20 سربراہی اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مذاکرات کے دوران بھارت میں انسانی حقوق، پریس کی آزادی اور سول سوسائٹی کے معاملات اٹھائے تھے۔
انھوں نے جی 20 اجلاس میں شرکت کے بعد سرکاری دورے پر ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی پہنچنے کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ بات کہی۔
بائیڈن نے کہا کہ "جیسا کہ میں ہمیشہ کرتا ہوں، میں نے وزیرِ اعظم مودی سے مذاکرات کے دوران ملک کو مضبوط اور خوشحال بنانے میں انسانی حقوق کے احترام، سول سوسائٹی کے اہم کردار اور آزاد پریس کی اہمیت کے معاملے کو اٹھایا تھا۔"
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت امریکہ اشتراک کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ سود مند گفتگو ہوئی اور انہوں نے جی20 سربراہی اجلاس کے انعقاد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ان کے اس بیان کے بعد بھارت کی اصل اپوزیشن جماعت کانگریس نے مودی حکومت پر سخت تنقید کی اور استہزائیہ انداز میں مودی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’نہ پریس کانفرنس کروں گا نہ کرنے دوں گا۔‘
پارٹی کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ جو بائیڈن نے ویتنام میں انسانی حقوق کے احترام، سول سوسائٹی اور آزاد پریس کے کردار کے بارے میں وہی باتیں کہی ہیں جو انہوں نے نئی دہلی میں وزیرِ اعظم مودی کے سامنے کہی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
قبل ازیں جمعے کو انہوں نے الزام لگایا تھا کہ بائیڈن کے ساتھ آنے والے وفد کو وزیرِ اعظم مودی اور صدر بائیڈن کے مابین مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات کرنے اور سوالوں کے جواب دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ صدر بائیڈن کی ٹیم کی متعدد درخواستوں کے باوجود بھارتی حکومت نے ان سے یا مودی سے سوال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اس وقت انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ صدر بائیڈن اب 11 ستمبر کو تائیوان میں اپنے ساتھ جانے والے میڈیا نمائندوں کے سوالوں کے جواب دیں گے۔
'اگر دہلی میں پریس کانفرنس ہوتی تو بائیڈن یہاں بھی بات کرتے'
نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی حکومت جن ایشوز کو اٹھنے سے روکنا چاہتی تھی وہ بالآخر اٹھائے گئے اور صدر بائیڈن کو جو باتیں کہنا تھیں وہ انہوں نے کہہ دیں۔
سینئر صحافی، تجزیہ کار اور ستیہ ہندی ڈاٹ کام کے ایڈیٹر آشوتوش کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن نے جو باتیں ویتنام میں جا کر کہی ہیں وہ بہت اہم ہیں۔
اُن کے بقول اگر جی20 کے موقع پر یہاں کے میڈیا میں جو بائیڈن کی باتیں نہیں آئیں تو اس میں بائیڈن کا کوئی قصور نہیں ہے۔ حالاں کہ انہوں نے یہاں بھی وہ باتیں کہی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر نئی دہلی میں پریس کانفرنس ہوئی ہوتی تو یہاں بھی یہ باتیں اٹھتیں۔ امریکی صدر بائیڈن جہاں بھی جاتے ہیں پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ لیکن جب مودی کے ساتھ ان کے مذاکرات ہوتے ہیں تو پریس کانفرنس نہیں ہوتی۔
ان کے بقول یہ بھارتی میڈیا کی ناکامی ہے کہ وہ بائیڈن کے اس بیان تک نہیں پہنچ سکا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں کے میڈیا میں ایسی باتیں ہیں کہ بھارتی حکومت نے بائیڈن کو پریس کانفرنس کرنے سے منع کر دیا تھا۔
اخبار ’راشٹریہ سہارا‘ کے سابق نیوز ایڈیٹر اور یو ٹیوب چینل ’سماچار ککش‘ کے مینیجنگ ایڈیٹر مفیض جیلانی کہتے ہیں کہ اگرچہ مودی حکومت نے بہت کوشش کی تھی کہ بھارت میں انسانی حقوق، پریس اور اظہارِ خیال کی آزادی اور سول سوسائٹی کی جو صورتِ حال ہے اس پر کوئی گفتگو نہ ہو لیکن وہ اس میں ناکام رہی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جی20 اجلاس کے موقع پر عالمی میڈیا نے بھارت میں انسانی حقوق، پریس اور اظہارِ خیال کی آزادی کے معاملے کو اٹھایا ہے۔
بعض اخباروں نے یہاں تک لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ اجلاس مودی حکومت کی انتخابی تشہیر تھی۔
اُنہوں نے کہا کہ امریکی اہل کار چاہتے تھے کہ مودی اور بائیڈن کے درمیان ہونے والے دو طرفہ مذاکرات کے موقع پر پریس کانفرنس ہو۔ لیکن بھارتی حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ ان کے مطابق بھارتی میڈیا کا اس وقت جو رویہ ہے اس کے پیشِ نظر اس میں ایسی باتیں نہیں آ سکتی تھیں۔ یہاں کے میڈیا نے یک طرفہ رپورٹنگ کی ہے۔
ان کے بقول صدر بائیڈن نے ویتنام میں جو کچھ کہا ہے اس سے مودی حکومت کے عزائم بے نقاب ہو گئے اور وہ جی 20 اجلاس کے انعقاد سے جو سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اس پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ انہوں نے بھی بائیڈن کے بیان کو بہت اہم قرار دیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر بائیڈن مودی مذاکرات کے بعد صحافیوں کو سوال کرنے کا موقع دیا جاتا تو وہ یہاں کے حالات کو اٹھاتے لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود عالمی میڈیا خاموش نہیں رہا۔
انھوں نے خبر رساں ادارے 'سی این بی سی' کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں جہاں حکومت کی جانب سے 80 کروڑ افراد کو پانچ کلو اناج ماہانہ دیا جا رہا ہو وہاں اتنے بڑے پیمانے پر جی20 کا اجلاس ہو رہا ہے۔
ان کے بقول اس پر یوتھ کانگریس کے صدر سری نواس نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس صحافی کو اس کے وطن واپس بھیج دو۔ اسے شاید معلوم نہیں ہے کہ یہا ں اتنی سچی بات کہنے کی اجازت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ حکومت اور بی جے پی کے رہنما بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پریس پر پابندی کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
بعض بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جی20 اجلاس کا موقع دوسرے سوالات کے پوچھنے کا نہیں تھا۔ بی جے پی رہنماؤں کے بقول کانگریس جی20 اجلاس کے سلسلے میں سیاست کرتی رہی ہے۔
صحافیوں کو سوال جواب سے دور رکھنے کی خبریں بھی عالمی میڈیا میں شائع ہوئی ہیں۔ خبر رساں ادارے 'سی این این' نے اپنی رپورٹ میں میڈیا کو رسائی نہ دینے کی بات کہی تھی۔
بھارت کے اخبار ’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق صدر بائیڈن کے ساتھ جانے والے صحافیوں نے دو طرفہ مذاکرات کے بعد سوال پوچھنے کی اجازت کے سلسلے میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سے بار بار سوال کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس پر قومی سلامتی کے مشیر نے کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ پر ہو گی۔ اس لحاظ سے یہ غیر معمولی ہے۔ یہ بھارت کا عام دورہ نہیں ہے جس میں وزیر اعظم کے دفتر میں ملاقاتیں ہوں اور پورا پروگرام ہو۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے بھارت جاتے وقت طیارے کے اندر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر کے نزدیک آزاد پریس ہماری جمہوریت کا ستون ہے۔
ان کے بقول امریکی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کرتی ہے کہ صدر کی تمام سرگرمیوں تک امریکی صحافیوں کی رسائی ہو۔ جو ہمارے اختیار میں ہو گا ہم اس کا وعدہ کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں میں ہونے والے تبادلۂ خیال کے بارے میں شفافیت ہو۔