امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار سعودی عرب کے بادشاہ سلمان عبدالعزیز سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے امریکہ، سعودی عرب تعلقات اور خطے کی مجموعی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔
صدر بائیڈن کی جانب سے یہ ٹیلی فون کال ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ان کی انتظامیہ سعودی صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت سے متعلق رپورٹ جاری کرنے والی ہے۔ پیش رفت سے آگاہ بعض امریکی عہدے داروں کے مطابق اس رپورٹ میں محمد بن سلمان کو خشوگی کے قتل کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔
امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ایورل ہینس نے جمعے کے روز کانگریس کو صحافی جمال خشوگی کے قتل میں سعودی حکومت کے کردار سے متعلق انٹیلی جنس کمیونٹی کے تجزیے پر مبنی ایک رپورٹ بھیج رہے ہیں۔ اس تجزیے کے اجرا کاتعلق این ڈی آئی سے متعلق اس قانون سے ہے جس میں اسے ایسی رپورٹ کو کانگریس میں بھیجنا ہوتا ہے جو درجہ بندی کے زمرے میں شامل نہ ہو۔
یہ تجزیہ انٹیلی جنس کمیونٹی کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے اور ریلیز کیے جانے والے حصے کو اپنی انتہائی ممکنہ حد تک درجہ بندی کے ضمرے سے نکال دیا گیا ہے جب کہ یہ اب بھی انٹیلی جنس کمیونٹی کے اہم ذرائع اور طریقہ کار کے تحفظ پر پورا اترتی ہے۔ غیر درجہ بند مکمل تجزیہ ڈی این آئی کی ویب سائٹ پر جمعے کو ہی پوسٹ کی جا رہی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق ٹیلی فون کال میں صدر بائیڈن اور شاہ سلمان نے خطے کی سیکیورٹی، یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے اقوامِ متحدہ اور امریکہ کی قیادت میں اقدامات سمیت سعودی عرب کو ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے عزم پر تبادلۂ خیال کیا۔
وائٹ ہاؤس کے جاری اعلامیے میں انسانی حقوق کے متعدد سعودی نژاد امریکی کارکنوں اور خواتین کے حقوق کی رضاکار لجين الهذلول کی رہائی کا ذکر بھی ہے۔
اعلامیے میں جمال خشوگی کے حوالے سے اس رپورٹ کا تذکرہ نہیں ہے جو ممکنہ طور پر اس ٹیلی فون کال کے بعد کسی بھی وقت جاری کی جا سکتی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ کیوں خشوگی کا معاملہ اس اعلامیے میں شامل نہیں ہے۔ واضح رہے کہ خشوگی امریکہ کے قانونی رہائشی تھے جب کہ ان کے بچوں کے پاس امریکہ کی شہریت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمال خشوگی کو آخری مرتبہ دو اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ بعدازاں اُنہیں سعودی ولی عہد سے منسلک اہل کاروں کی ٹیم کی جانب سے قتل کیے جانے کی اطلاعات آئی تھیں۔ خشوگی کی باقیات آج تک نہیں مل سکیں۔
بعد ازاں سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا کہ جمال خشوگی ایک آپریشن میں غلطی سے قتل ہو گئے تھے۔ البتہ اس ہلاکت کی محمد بن سلمان سے کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کی گئی تھی۔
محمد بن سلمان کا، جن کو ایم بی ایس بھی کہا جاتا ہے، نام جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں 2018 کے آخری ہفتوں میں سامنے آنا شروع ہوا تھا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکہ کے قانون سازوں کے ان مطالبات کو مسترد کر دیا تھا کہ اس رپورٹ کا اجرا کیا جائے۔ البتہ اس وقت کی امریکہ کی انتظامیہ نے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت اور ایران سے بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ریاض سے اتحاد کو ترجیح دی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جو بائیڈن نے صدارتی انتخابی مہم میں عہد کیا تھا کہ وہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں انسانی حقوق کی پاسداری پر مزید زور دیں گے۔ صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کو ایسے مہلک ہتھیاروں کی فروخت روک دی تھی جو ممکنہ طور پر یمن جنگ میں استعمال ہو سکتے تھے۔
بائیڈن انتظامیہ نے یمن جنگ کے خاتمے کی سفارتی کوشش کے لیے خصوصی نمائندے کا بھی تقرر کیا تھا۔
جو بائیڈن انتظامیہ محمد بن سلمان سے بھی فاصلہ رکھے ہوئے ہے۔ شاہ سلمان کے اس 35 سالہ بیٹے کو ہی سعودی عرب کا حقیقی حکمران سمجھا جاتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی کہہ چکی ہیں کہ جو بائیڈن صرف اپنے ہم منصب سعودی بادشاہ شاہ سلمان سے ہی رابطہ کریں گے۔