امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن نے کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے کے لیے 19 کھرب ڈالر کے کرونا ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے جس کا نفاذ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد کرنے کے خواہش مند ہیں۔
نومنتخب صدر نے کرونا ریلیف پیکج کو 'امریکن ریسکیو پلان' کا نام دیا ہے۔
جمعرات کو قوم سے خطاب کے دوران جو بائیڈن نے امریکی عوام کو اپنے اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
پلان کے مطابق جو بائیڈن نے 20 جنوری کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی صدارت کے ابتدائی 100 روز کے دوران امریکی عوام کو 10 کروڑ ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
اپنے خطاب میں نو منتخب صدر نے کہا کہ عالمی وبا کے سبب درپیش معاشی بحران کے باعث لاکھوں امریکیوں کو اپنے پے چیک یا تنخواہ کے ساتھ جو عزت نفس حاصل ہوتی ہے، اس پر سمجھوتہ کرنا پڑا ہے اور اس میں اُن کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔
انہوں نے عالمی وبا سے متاثر ہونے والے امریکی عوام کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے فوری طور پر قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ ایک قوم کی حیثیت سے عوام کو بحران سے نکالنے کے لیے انہیں چیلنج کا سامنا ہے۔
امریکن ریسکیو پلان میں کیا ہے؟
نو منتخب امریکی صدر کی جانب سے جمعرات کو پیش کردہ منصوبے کے مطابق دیہی علاقوں میں موبائل ویکسینیشن سینٹرز اور کمیونٹی سینٹرز کو 20 ارب ڈالر فراہم کیے جائیں گے اور اس رقم کو ریاستی اور مقامی حکومتوں کے تعاون سے خرچ کیا جائے گا۔
مجوزہ منصوبے میں بیشتر امریکیوں کو بذریعہ چیک 1400 ڈالر کی ادائیگی اور ستمبر سے بے روزگار افراد کو بطور انشورنس ہفتہ وار 400 ڈالر کی اضافی رقم کی فراہمی بھی شامل ہے۔
چھوٹے کاروبار کرنے والے طبقے کو ریلیف فراہم کرنے سے متعلق کئی اقدامات بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔
پلان میں اسکولوں کو محفوظ انداز میں کھولنے اور قومی سطح پر ویکسینیشن پروگرام کے لیے بھی فنڈ رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
بائیڈن کے قوم سے خطاب سے قبل اُن کی ٹرانزیشن ٹیم نے ایک بیان جاری کیا تھا جس کے مطابق امریکین ریسکیو پلان لگ بھگ 19 کھرب ڈالر کا ہو گا۔
ری پبلکنز کا ردِ عمل
دوسری جانب ری پبلکن سینیٹرز نے جو بائیڈن کے مجوزہ منصوبے میں مختص رقم کو بہت زیادہ قرار دیا ہے۔
ریاست ٹیکساس سے ری پبلکن سینیٹر جان کورنین نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یاد رکھیں کہ 18 روز قبل ہی 900 ارب ڈالر کا کرونا ریلیف بل منظور ہوا ہے۔
تاہم کانگریس میں ڈیموکریٹ قائدین نے اعلان کیا ہے کہ وہ مجوزہ منصوبے پر بائیڈن حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔
واضح رہے کہ ایسے کسی بھی منصوبے کو کانگریس کی منظوری درکار ہوگی۔ ڈیموکریٹس کو ایوانِ نمائندگان میں پہلے ہی سادہ اکثریت حاصل ہے جب کہ 100 رکنی سینیٹ میں بھی ان کے اور ری پبلکنز کے ارکان کی تعداد برابر ہے۔
اگر سینیٹ میں کسی قانون پر رائے شماری کے دوران حامی اور مخالف ووٹوں کی تعداد برابر ہو تو ایسی صورت میں نائب صدر کاملا ہیرس ووٹ دینے کی مجاز ہوں گی۔
کانگریس کی اس صورتِ حال کے باعث بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں جو بائیڈن اپنے تجویز کردہ پلان کی منظوری میں کامیاب ہو سکتے ہیں کیوں کہ ڈیموکریٹس پہلے ہی کرونا سے متاثرہ امریکی شہریوں، کاروباری اداروں اور معیشت کے لیے زیادہ بڑے پیکج کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ عالمی وبا سے دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جہاں اب تک تین لاکھ 88 ہزار سے زیادہ اموات اور دو کروڑ 33 لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
امریکی حکومت نے دو کرونا ویکسینز کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے رکھی ہے۔ ہر فرد کو ویکسین کی دو خوراکیں دینا ہوں گی اور اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد ویکسین کی پہلی خوراک لے چکے ہیں۔