امریکہ کا بیجنگ کے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان

فائل فوٹو

امریکہ نے اگلے برس بیجنگ میں منعقد ہونے والے 2022 کے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے پیر کو صحافیوں کو دی جانے والی پریس بریفنگ کے دوران ایک بیان میں کہا کہ بائیڈن انتظامیہ بیجنگ میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپکس کے دوران سفارتی اور سرکاری نمائندوں کو نہیں بھیجے گی۔

ان کے بقول اس فیصلے کی وجہ چین کی جانب سے 'سنکیانگ میں جاری نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے علاوہ دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں' ہیں۔

امریکہ کی جانب سے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا مطلب ہے کہ ان اولمپکس کے دوران امریکی عہدے دار اولمپکس تقریبات کا حصہ نہیں ہوں گے۔ البتہ امریکی ایتھلیٹس کی ٹیم ان اولمپکس میں شرکت کرے گی۔

یاد رہے کہ سرمائی اولمپکس اگلے برس فروری کی چار سے 20 تاریخ کو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقد ہو رہے ہیں۔

SEE ALSO: بیجنگ میں سرمائی اولمپکس میں کرونا کے باعث تماشائیوں کا داخلہ ممنوع ہونے کا امکان

امریکہ کی جانب سے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان 1980 میں ماسکو کے موسمِ گرما کے اولمپکس کی یاد دلاتا ہے جب اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے سوویت یونین کی جانب سے 1979 میں افغانستان پر قبضے کے جواب میں امریکی کھلاڑیوں کو ان کھیلوں میں شرکت سے منع کر دیا تھا۔

جین ساکی کا کہنا تھا کہ "ٹیم یو ایس اے کے تمام کھلاڑیوں کو ہماری مکمل حمایت حاصل ہو گی اور ہم ملک میں رہ کر ان کی حمایت کریں گے۔"

لیکن بقول ان کے امریکہ ان کھیلوں کی تشہیر میں حصہ نہیں لے گا۔

SEE ALSO: پینگ شوائی تنازع: وومن ٹینس ایسوسی ایشن کا چین میں تمام ایونٹس معطل کرنے کا اعلان

امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ چین کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بشمول چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر حراست کے واقعات اور ہانگ کانگ میں جمہوریت پسند قوتوں کے خلاف کریک ڈاؤن جیسے امور کی وجہ سے بیجنگ میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ پر غور کر رہے ہیں۔

پیر کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے کیے گئے اعلان سے قبل چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے ان امریکی قانون سازوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو صدر بائیڈن پر سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کرنے کے فیصلے کا دباؤ ڈال رہے تھے۔ انہوں نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ایسی صورت میں چین جوابی اقدامات اٹھائے گا۔