جب بینظیر بھٹو کے ساتھ طے نصف گھنٹے کا انٹرویو ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لے گیا

  • قمر عباس جعفری

پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو۔ 1988 کی فائل فوٹو

واشنگٹن میں یہ دسمبر کی ایک سرد صبح تھی۔ وہ میری ہفتہ وار چھٹی کا دن تھا۔ ابھی میں بستر ہی میں تھا کہ میرے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ٹیلیفون اٹھایا تو دوسری جانب ہمارے ایک دوست تھے جو پیپلز پارٹی کے ایک پرانے کارکن تھے اور اب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے روہانسی آواز میں بتایا کہ اب بینظیر صاحبہ ہمارے درمیان نہیں رہیں۔

ابھی چونکہ نیند کا خمار باقی تھا اور ذہن پوری طرح بیدار نہیں ہوا تھا، اس لئے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی تو میری ان سے ٹیلیفون پربات ہوئی تھی۔ وہ پوری طرح سے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھیں۔ اور آنے والے الیکشن کے لئے مہم چلا رہی تھیں۔ اپنی سلامتی کے متعلق اگرچہ ان کو شدید خطرات کا احساس تھا، لیکن وہ ایک سیاست داں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ اور انہیں پورا کرنے کے لئے پر عزم تھیں۔ میں نے ان سے پھر پوچھا اور انہوں نے وہی بات دہرائی۔ یقین کرنا مشکل بلکہ بہت مشکل تھا۔ لیکن حقیقت وہی تھی جو ہمارے دوست کہہ رہے تھے۔

مشرف کی حکومت سے معاملات طے ہونے کے بعد جب وہ اکتوبر 2007ء میں خود پرعائد کردہ جلاوطنی ختم کر کےکراچی پہنچیں تو ان کے استقبالیہ جلوس پر ایک بڑے خود کش حملے میں ان کے بہت سے حامی مارے گئے۔ تاہم، وہ محفوظ رہیں۔

بے نظیر بھٹو کی وی او اے کے اسٹوڈیو میں ایک یادگار تصویر۔ قمر عباس جعفری کے علاوہ وائس آٖف امریکہ کی اس وقت کی ساوتھ ایشیا ڈویژن کی سربراہ اسپوزمائی بھی تصویر میں نمایاں ہیں (فائل فوٹو)

27 دسمبر کی اس یخ بستہ صبح کی اس ٹیلیفون کال نے ماضی کے بہت سے دریچوں کو نگاہوں کے سامنے وا کر دیا۔ جب اکتوبر میں وہ اپنی خود عائد کردہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس جارہی تھیں تو جانتی تھیں کہ وہ بہت سے خطرات مول لے رہی ہیں۔ میں نے ٹیلیفون پر ان کا ایک مختصر سا انٹرویو بھی کیا۔ وہ اس وقت دوبئی میں تھیں وہ پاکستان میں اپنے لئے خطرات کو اچھی طرح محسوس تو کر رہی تھیں، لیکن ان کا یقین تھا کہ اگر وہ اس مرحلے پر پاکستان نہ گئیں تو ان کی پارٹی کو اس سے بہت نقصان پہنچے گا۔ اور وہ ہر قیمت پر پارٹی کے مفاد کو اپنی سلامتی پر ترجیح دینے کے لئے تیار تھیں۔

میں نے برسوں انہیں وزیر اعظم کی حیثیت سے، لیڈر آف دی اپوزیشن کی حیثیت سے اور پھر ان کی جلا وطنی کے دور میں کور کیا۔ اور اس عرصے کے بہت سے واقعات آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بہ حیثیت وزیر اعظم خطاب کے لئے وہ نیو یارک آئی ہوئی تھیں۔ جنرل اسمبلی کے کوریج کے لئے میں بھی نیو یارک میں ہی تھا اور ان سے میرا انٹرویو بھی ان کی پاکستان سے روانگی سے قبل ہی طے ہو چکا تھا۔ چنانچہ میں وقت مقررہ سے کچھ قبل ہی ان کے ہوٹل پہنچ گیا اور ان کے متعلقہ عملے کو مطلع کر دیا کہ میں انٹرویو کے لئے پہنچ گیا ہوں۔ اس وقت عملے نے مجھے بتایا کہ بعض ناگزیر مصروفیات اور غیر ملکی عمائدین سے اچانک ملاقاتوں کے سبب یہ انٹرویو نہیں ہو سکے گا۔ ظاہر ہے یہ میرے لئے ایک مایوس کن صورت حال تھی کہ ایک ماہ پہلے طے کیا گیا انٹرویو یوں اچانک منسوخ کردیا جائے۔

میں واپس پریس روم میں آیا اور اپنا سامان اٹھا کر لفٹ کے ذریعے نیچے آ کر باہر نکلنے کے لئے ہوٹل کے گیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ وزیر اعظم کے عملے کے رکن بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ کہاں جارہے ہیں۔ آپ کا تو وزیر اعظم سے انٹرویو ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ مجھے تو یہ بتایا گیا تھا کہ یہ انٹرویو نہیں ہو سکے گا۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی۔ آپ چلئے۔ لیکن پلیز وزیر اعظم سے اس واقعے کا ذکر نہ کیجئے گا۔ وہ مجھے اندر لے گئے۔ اس دن وہ شاید بڑے اچھے موڈ میں تھیں۔ آدھے گھنٹے کا وقت طے تھا۔ لیکن انٹرویو ایک گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک چلا۔ اور وہ بڑے خوشگوار موڈ میں گفتگو کرتی رہیں۔ ایسے موقعوں پر سرکاری عملے کی بےبسی قابل دید ہوتی ہے۔ جو چاہتے ہیں کہ انٹرویو جلد ختم ہو۔ وہ پیچھے کھڑے ہو کر اشارے کرتے ہیں کہ انٹرویو ختم کرو اور ایسے میں ایک اور سوال کردیا جائے اور وزیر اعظم اس کا جواب دینے کے لئے آمادہ بھی ہوں تو ان کے چہروں کے تاثرات قابل دید ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جانب سے قمر عباس جعفری کو دیا جانے والا تحفہ

کوئی ایک گھنٹے کے انٹرویو کے بعد میں باہر نکلا اور اپنے ہوٹل آنے کے لئے گیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ پھر اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا کہ ان کے عملے کے ایک افسر میری پیچھے دوڑتے ہوئے آ رہے تھے۔ اب کیا ہوا کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ایک پیکٹ لئے ہوئے میرے پاس پہنچ گئے۔ اور کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے آپ کے لئے یہ ایک تحفہ ہے۔ شکریہ ادا کرکے ان سے وہ پیکٹ لیا اور اپنے ہوٹل آکر اسے کھول کر دیکھا تو چاندی کا ایک خوبصورت کپ وزیر اعظم پاکستان اور ان کے شوہر کی جانب سے تھا۔ جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔

اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی کے دوران وہ جب بھی امریکہ آتیں تو میری درخواست پر وائس آف امریکہ ضرور آتیں۔ ہم انہیں اسٹوڈیو میں لے جاتے۔ وہاں مختلف لینگوئج سروسز اور نیوز روم کے لوگ ان سے انٹرویو کرتے۔ اور بعض دفعہ تو اتنے زیادہ انٹرویوز ہوتے کہ وہ پریشان ہو جاتیں۔ بس ہلکا سا احتجاج کر کے خاموش ہو جاتیں۔ اور پھر اگلا انٹرویو شروع ہو جاتا۔

بینظیر صاحبہ کے حوالے سے ایک اور واقعہ۔ جنرل مشرف کے مارشل لاء کے بعد بینظیر صاحبہ اور نواز شریف صاحب کا بیشتر قیام لندن ہی میں ہوتا تھا۔ اور وہیں ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا۔ میں بھی اس وقت لندن ہی میں تھا۔ بینظیر صاحبہ اور نواز شریف نے مسلم لیگ کے لندن آفس میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس بھی کی۔ اس معاہدے کا مقصد پاکستان میں مشرف کی فوجی حکمرانی ختم کرکے ملک میں سویلین ڈیموکریٹک حکومت قائم کرنے کے لئے کام کرنا تھا۔ اکتوبر 2007ء میں جب بینظیر کی وطن واپسی پر ان کے استقبالیہ جلوس پر حملہ ہوا۔ جس میں بہت سے لوگ مارے گئے تو نواز شریف نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور دوسرے دن کے وائس آف امریکہ سے میرے ایک پروگرام میں بینظیر اور نواز شریف دونوں لائیو موجود تھے۔ اور اس دہشت گردی کی مذمت کر رہے تھے۔ ریڈیو کے اس پروگرام کو پاکستانی اخبارات نے بھی نمایاں کوریج دی تھی۔

اور اکتوبر 2007ء میں ان کے جلوس پر حملے کے کوئی دو ماہ آٹھ دن بعد ہی انہیں بھی راولپنڈی میں اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ اپنا جلسہ ختم کر کے واپس جارہی تھیں۔ اور چودہ سال گزرنے کے باوجود، جس کے دوران ان کی اپنی پیپلز پارٹی بھی برسر اقتدار رہی، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھی تحقیقات ہوئیں۔ کچھ لوگ پکڑے بھی گئے کچھ جیل میں ہیں۔ کچھ مفرور ہیں۔ اور کچھ مر کھپ گئے۔ مگر آج تک اس بات کا تعین نہ ہو سکا کہ اس قتل کا ماسٹر مائینڈ کون تھا۔ اور اس کے اصل محرکات کیا تھے۔ اور بینظیر صاحبہ کی روح آج بھی یہ سوال کرتی محسوس ہوتی ہے کہ

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے