امریکہ میں آباد مسلم نوجوانوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہیں امریکی معاشرے میں ضم ہونے میں بہت زیادہ مشکلات پیش نہیں آتیں لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے شدت پسندی میں ملوث ہونے سے متعلق موجود منفی تاثر کے باعث بعض حالات میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
'وائس آف امریکہ' کے زیرِ اہتمام ہونے والے ایک مذاکرے میں شریک امریکی مسلم نوجوانوں کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کا چیلنج صرف امریکی مسلمانوں کو درپیش نہیں بلکہ کسی بھی مذہب اور نظریے کے ماننے والے افراد شدت پسندی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
مذاکرے کا اہتمام وائس آف امریکہ کے 'سینٹرل اور ساؤتھ ایشین ڈویژن' نے واشنگٹن کے معروف 'نیوزیم' میں کیا تھا جس کا مقصد امریکہ میں آباد مسلمان نوجوانوں کو درپیش مسائل اور دستیاب مواقع پر گفتگو کرنا تھا۔
مذاکرے میں شریک ورجینیا میں واقع ایک مسلم مرکز 'ایڈمز سینٹر' کے بورڈ ممبر عثمان الطالب کا کہنا تھا کہ میڈیا کی آزادی امریکہ میں بہت اہم ہے لیکن میڈیا کو دیکھنا ہوگا کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے۔
ان کے بقول میڈیا کو مسلمان اور اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنے کی کوششوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور مسلمان اور دیگر اقلیتوں کو درپیش مسائل سامنے لانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ترکی سے تعلق رکھنے والی اویا روز اکتاس کا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے نوجوانوں کو شدت پسندی سے بچانے کے لیے کیا کیا، لیکن کوئی یہ سوال مسیحیوں یا دیگر مذہبی گروہوں سے نہیں کرتا حالاں کہ ان کمیونیٹیز کو بھی شدت پسندی کا چیلنج درپیش ہے۔
مذاکرے میں شریک صومالی نژاد امریکی نوجوان محمد حسین کا کہنا تھا کہ وہ صومالی امریکی نوجوانوں کی ایک تنظیم چلا رہے ہیں جس کا مقصد صومالی نوجوانوں کو امریکہ میں دستیاب تعلیم اور روزگار کے مواقع تک رسائی فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ امریکہ میں ہی پیدا ہوئے اس لیے انہیں ان مسائل کا شکار نہیں ہونا پڑا جو عموماً تارکینِ وطن کو درپیش ہوتے ہیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی 'افغان اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن' کی صدر مرسل محمد کا کہنا تھا کہ امریکی معاشرے میں بطور تارکِ وطن ضم ہونا اتنا مشکل نہیں لیکن اگر آپ مسلمان تارکِ وطن ہیں تو پھر آپ کو دیگر افراد کی نسبت کچھ مشکل ضرور پیش آتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پروگرام کے میزبان اکمل داوی نے بتایا کہ 'پیو ریسرچ' کے ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکہ میں اس وقت 33 لاکھ مسلمان بستے ہیں جن کی تعداد 2050ءکے اختتام تک تقریباً دگنی ہوجائے گی۔
ان کے بقول گوکہ مسلمانوں کی موجودہ تعداد امریکہ کی کل آبادی کا صرف ایک فی صد ہے لیکن اسلام اور مسلمان امریکی صحافت اور سیاست کا ایک مستقل موضوع ہیں۔ ایک جانب جہاں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے منسلک کرتے ہوئے ان کی امریکہ آمد پر پابندی کے مطالبے ہیں تو دوسری جانب ایسی توانا آوازیں بھی موجود ہیں جو اسلام اور دہشت گردی کو جوڑنے اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔
مذاکرے کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے وائس آف امریکہ 'سینٹرل اینڈ ساؤتھ ایشین ڈویژن' کے سربراہ اکبر ایازی نے کہا کہ تمام امریکی انسانیت پر یقین رکھتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور گروہ سے ہوکیوں کہ یہ امریکی معاشرے کی ایک بنیادی قدر ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان نوجوان ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرکے امریکہ اور دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔