ایک جانب تحقیق کے بعد یہ سامنے آیا ہے کہ چین میں سامنے آنے والا کرونا وائرس چمگادڑ سے انسانوں میں منتقل ہوا تو دوسری جانب انڈونیشیا کے بعض علاقوں میں اب بھی چمگادڑ کا گوشت مشہور ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق انڈونیشیا کے جزیرے سولاویسی کے شمالی علاقے میں آباد میناہاسا قبیلے میں چمگادڑ کا سوپ نما سالن 'پانیکی' روایتی طور پر مشہور ہے۔
پانیکی کی تیاری میں پورا چمگادڑ استعمال ہوتا ہے۔ اس کا سر اور پر بھی جسم سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
شمالی سولاویسی کے شہر تموھون میں قائم مارکیٹ میں چمگادڑ فروخت کرنے والے دکان داروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی خبریں سامنے آنے کے باوجود ان کے کاروبار پر اثر نہیں پڑا ہے۔
چمگادڑ کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے خریدار ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔
اس مارکیٹ میں چمگادڑ فروخت کرنے والے عام دنوں میں 50 سے 60 چمگادڑ یومیہ فروخت کرتے ہیں۔ البتہ جب کوئی تہوار آتا ہے تو اس کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے اور یومیہ 500 سے 600 تک چمگادڑیں فروخت ہوتی ہیں۔
پانیکی کی تیاری میں چمگادڑ کے جسم کے کچھ حصے نکال دیے جاتے ہیں۔ یہ حصے شدید بدبودار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا استعمال نہیں کیا جاتا۔
اس کو پکانے سے قبل آگ پر سینکا بھی جاتا ہے تاکہ اس کے جسم پر موجود بال وغیرہ جل جائیں۔
چین کے شہر ووہان کی ایک مارکیٹ سے کرونا وائرس پھیلا تھا۔ بعض ماہرین ان شبہات کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس مارکیٹ میں چمگادڑوں سے انسان میں کرونا وائرس منتقل ہوا جس کے بعد اس نے وبائی شکل اختیار کر لی۔
'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق اس مارکیٹ میں غیر قانونی طور پر مختلف جنگلی جانور بھی فروخت ہوتے تھے جن کو کھانے کے لیے خریدا جاتا تھا۔
کرونا وائرس سے چین میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کی موت واقع ہو چکی ہے جب کہ 43 ہزار کے قریب افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور چین کے صحت کے حکام کے مطابق چین کے علاوہ 24 ممالک میں اس وائرس کے 320 کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ انڈونیشیا کی آبادی 26 کروڑ سے زیادہ ہے جب کہ اس کی 80 فی صد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق اس خطے کے دیگر ممالک جیسے ملائیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، ویتنام اور فلپائن میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ فلپائن میں اس وائرس سے ایک شخص کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔ ایسے میں انڈونیشیا میں کوئی کیس سامنے نہ آنے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
امریکہ کے ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے محققین کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا کرونا وائرس کی نگرانی کے نظام کو مزید موثر بنائے۔ جب کہ چین کے وائرس سے متاثر شہر ووہان سے ہوائی سفر کرکے آنے والے افراد میں وائرس کی تشخیص کو مزید بہتر کرے۔
ہارورڈ کے محققین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا میں اس وائرس کے کنفرم کیسز نہ ہونے کی وجہ موثر نگرانی کا نظام نہ ہونا بھی ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب انڈونیشیا کے وزیر صحت تیراوان اگوس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کرونا وائرس کی تشخیص کی کیٹس موجود ہیں۔ یہ تصدیق شدہ کٹس ہیں۔ کسی بھی قسم کی معلومات چھپائی نہیں جا رہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈونیشیا میں اب تک 64 افراد کے ٹیسٹ کیا گیا جن میں سے 62 ٹیسٹ منفی رہے البتہ دو کی تشخیص کا عمل ابھی جاری ہے۔