|
بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے ہزاروں طلبا نے اتوار کے روز اہم شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے مظاہرہ کیا۔ وہ سرکاری ملازمتوں میں آزادی کے ہیروز کے بچوں کے کوٹے کو امتیازی سلوک قرار دے کر اس کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تقریباً تمام یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے مظاہروں میں شرکت کی اور یہ مطالبہ کیا کہ کوٹہ سسٹم ختم کر کے سول سروس کی ملازمتوں کے لیے میرٹ پر مبنی نظام قائم کیا جائے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج ریلی کے دوارن مظاہرے کی آرگنائزر ناہید الإسلام نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے کہا کہ ہمارے لیے اب صورت حال کرو یا مرو کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ، ’کوٹہ ایک امتیازی نظام ہے۔ اب اس میں اصلاح کرنی ہو گی۔‘
کوٹہ کے نظام کے تحت آدھی سے زیادہ آسامیاں مخصوص افراد کے لیے مختص ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کا 30 فی صد کوٹہ ان افراد کے بچوں کے لیے مختص ہے، جنہیں آزادی کے ہیروز کیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے جنگ لڑی تھی۔ 10 فی صد نشتیں خواتین کے لیے ہیں جب کہ 10 فی صد مخصوص اضلاع کے لیے رکھی گئیں ہیں۔
طالب علموں کا کہنا ہے کہ صرف اقلیتوں اور معذور افراد کا کوٹہ باقی رکھا جائے جو مجموعی طور پر 6 فی صد ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم سے صرف وزیراعظم شیخ حسینہ کے حامیوں اور حکومت نواز گروپوں کے بچوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
شیخ حسینہ بنگلہ دیش کے بانی مجیب الرحمن کی صاحب زادی ہیں۔
شیخ حسینہ کی عمر 76 سال ہے۔ انہوں نے جنوری میں مسلسل چوتھی بار اپنے عہدے کے لیے الیکشن جیتا تھا۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ انہیں یہ کامیابی ایسے میں ملی کہ انہیں کسی حقیقی حز ب اختلاف کا سامنا نہیں تھا اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انہوں نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا تھا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی عدالتیں، شیخ حسینہ کی حکومت کے فیصلوں کے حق میں ربڑ اسٹمپ کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔
اس سے قبل 2018 میں کوٹہ سسٹم کو ہفتوں تک جاری رہنے والے طلبہ کے احتجاج کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔
لیکن جون میں ڈھاکہ کی ہائی کورٹ نے کوٹہ سسٹم کی منسوخی کو غیر قانونی قرار دے کر دوبارہ بحال کر دیا تھا۔
شیخ حسینہ نے طالب علموں کے مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ عدالت نے طے کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش کے اخباروں میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اتوار کے روز اپنی پارٹی کی خواتین کارکنوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طلبا مظاہروں میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔
طلبا کے مظاہروں کی ابتدا جولائی کے آغاز میں ہوئی تھی جن کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ میں بھی طلبا نے اتوار کے روز مظاہرہ اور مارچ کیا اور نعرے لگائے کہ ہم کوٹہ سسٹم کو دفن کر دیں گے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ ڈھاکہ میں طلبہ کے مظاہروں سے کئی گھنٹوں تک ٹریفک میں خلل پڑتا رہا۔
مقامی پولیس کے سربراہ ایف ایم شاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ جہانگیر یونیورسٹی کے کم ازکم 500 طلبہ نے دارالحکومت ڈھاکہ کو کم ازکم دو گھنٹوں تک جنوب مشرقی بنگلہ دیش سے کاٹے رکھا۔
مظاہرے کے ایک لیڈر یامین مولا نے بتایا کہ اس مظاہرے میں کم از کم 30 ہزار طالب علموں نے حصہ لیا، تاہم آزاد ذرائع سے اس تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
سن 1971 میں جب بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کی تھی تو اس کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا تھا لیکن 2009 کے بعد سے وہ مسلسل 6 فی صد کی سالانہ شرح سے ترقی کر رہا ہے۔
اس تیز رفتار اقتصادی ترقی کا سہرا شیخ حسینہ کے سر ہے۔ سن 2021 میں 17 کروڑ آبادی کے اس ملک کی فی کس سالانہ آمدنی بھارت سے بڑھ گئی تھی۔
لیکن اس ترقی میں زیادہ تر حصہ سلے سلائے کپڑے برآمد کرنے والی صنعت کا ہے جس کی ورک فورس میں خواتین کی کثیر تعداد شامل ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں کے لاکھوں طالب علموں کو ملازمتوں کے ایک بڑے بحران کا سامنا ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)