بنگلہ دیش ٹیکسٹائل کارکنوں کی اجرتیں بڑھائے: سویڈش کمپنی

بنگلہ دیش میں سلے سلائے کپڑوں کی صنعت

بنگلہ دیش کی سلے سلائے کپڑوں کی صنعت کا شمار اس شعبے میں مقابلہ کرنے والی دنیا کی بڑی صنعتوں میں کیا جاتا ہے جس کی زیادہ تر وجہ وہاں مزوروں کی اجرتیں کم ہونا ہے۔
سلے سلائے ملبوسات کی سویڈن کی کمپنی ایچ اینڈ ایم نے بنگلہ دیش کی حکومت پر ٹیکسٹائل کے شبعے میں کام کرنے والے اپنے مزوروں کی کم ازکم اجرت میں اضافہ کرنے پر زور دیا ہے۔
ایچ اینڈ ایم نے بدھ کے روز کہا ہے کہ کمپنی کے سربراہ کارل جوہن پیرسن نے یہ اپیل اس ہفتے کے شروع ڈھاکہ میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے ملاقات کے دوران کی۔

فیشنی ملبوسات کی اس بڑی کمپنی نے کہاہے کہ اس نے بنگلہ دیش سےٹیکسٹائل شعبے کے مقامی کارکنوں کی کم ازکم ا جرتوں پر سالانہ بنیادوں پر نظرثانی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں افراط زر کی شرح اور صارفین کی قیمتوں کے انڈکس کو بھی مدنظر رکھیں۔
ایچ اینڈ ایم کا کہناہے کہ اس جنوب ایشیائی ملک میں قومی سطح پر کم ازکم اجرتوں پر 1994ء کے بعد سے اب تک صرف دو باراضافہ کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کی سلے سلائے کپڑوں کی صنعت کا شمار اس شعبے میں مقابلہ کرنے والی دنیا کی بڑی صنعتوں میں کیا جاتا ہے جس کی زیادہ تر وجہ وہاں مزوروں کی اجرتیں کم ہونا ہے۔

بنگلہ دیش میں ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت تے وابستہ ایک کارکن کی اوسطاً ماہانہ اجرات 45 امریکی ڈالر ہے، جو اس کے مدمقابل ممالک بھارت اور چین سے نصف یا اس سے بھی کم ہے۔
اس سال کے شروع میں ملبوسات کی صنعت سے وابستہ مزوروں نے اپنی اجرتوں میں اضافے کے لیے مظاہرے کیے تھے جس کے نتیجے میں کئی فیکٹریاں بند ہوگئی تھیں۔

ایچ اینڈ ایم کے سربراہ پیرسن نے بدھ کے روز کہا کہ ہمارے خیال میں یہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور ہمارے مفاد میں بھی ہے کہ یہ شعبہ ترقی اور پختگی کی جانب اپنا سفر جاری رکھے ۔

ایچ اینڈ ایم کے دنیا کی 44 مارکیٹوں میں لگ بھگ 2600 اسٹور ہیں۔ یہ کمپنی مغربی برانڈ کی ان چند بڑی کمپنیوں میں شامل ہیں جو اپنے لیے بنگلہ دیش سے مصنوعات خریدتی ہیں۔

سویڈش کمپنی کا کہناہے کہ اس کی کوئی فیکٹری نہیں ہے اور نہ ہی وہ اجرتوں پر فیصلے کرتی ہے لیکن کامیابیوں کے لیے کام کرنے والوں کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔