بلوچستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے حال ہی میں حکومت اور بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) گروپ کے درمیان مفاہمت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اختر مینگل پر الزام لگایا ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کی محرومیوں اور جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
خیال رہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل اختر مینگل کی جماعت نے اختلافات کے باعث اپوزیشن جماعتوں سے مراسم بڑھا لیے تھے، تاہم حال ہی میں حکومت کی جانب سے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی پر بی این پی مینگل نے بجٹ کی منظوری کے لیے حکومت کو ووٹ دیا تھا۔
بلوچستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کا یہ الزام ہے کہ اختر مینگل ذاتی مفادات کے لیے بلوچ عوام کی محرومیوں کا کارڈ استعمال کرتے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ بی این پی نے انتخابی مہم کے دوران لاپتہ افراد اور افغان مہاجرین سے متعلق معاملات پارلیمینٹ میں اٹھانے کا وعدہ کیا تھا، تاہم وہ اس میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔
جان محمد بلیدی نے الزام لگایا کہ اختر مینگل نے حکومت کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر بجٹ سے قبل مراعات لے لی ہیں اور اب وہ خاموش ہو گئے ہیں۔
جان محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ اختر مینگل کبھی حکومت اور کبھی اپوزیشن کے پاس جا بیٹھتے ہیں حکومت کے ساتھ ان کا معاہدہ ان کے پارٹی کارکنوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں نے ایک سال کبھی حکومت اور کبھی حزب مخالف کی جماعتوں کا ساتھ دے کر وقت ضائع کیا اب اگر انھوں نے ایک صحیح فیصلہ کیا ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کر تے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ بلوچستان کی ترقی چاہتے ہیں ہمارے وزیر اعلیٰ جام کمال کا بھی یہی مقصد ہے اور اب اختر مینگل بھی اس میں دوبارہ شامل ہوئے ہیں۔
بلو چستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر سینیٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے ہمیشہ بلوچستان کے آئینی اور قانونی حقوق کو مقدم رکھا ہے اگر ہمارے مطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تو آئندہ ہمارے اور حکومت کے راستے الگ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بات صرف بجٹ پاس کروانے کی نہیں ہے اگلے سال پھر بجٹ پیش کیا جائے گا۔ تبدیلیاں بھی آئیں گی لیکن میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات پورے نہ کیے تو ظاہر ہے پھر ہمارے راستے الگ ہوں گے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی اور بلوچستان سے افغان مہاجرین کا ا نخلاء اولین نکات تھے۔
بی این پی کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے پر پورے سال کے دوران کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا اب رواں ہفتے کے دوران وفاقی حکومت اور بی این پی کے رہنماﺅں کے درمیان ایک بار پھر معاہدہ ہوا ہے۔ جس کے تحت پارلیمنٹ کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کے ارکان بلوچستان آئیں گے اور صوبے کے مسائل کا جائزہ لے کر رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کریں گے۔