سیاسی جماعت کی تشکیل سیاسی عمل میں عوامی شرکت کی عکاس

فائل

بلوچستان کے سابق گورنر، نواب ذوالفقار علی مگسی نے صوبے میں قائم ہونے والی نئی سیاسی جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی کو پرانی جماعتوں کے لئے چیلنج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کے قیام کو ’’جمہوری عمل کا حصہ قرار دیا ہے‘‘۔ صوبے کے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جماعت کا قیام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ صوبے کی عوام نے جمہوری عمل میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔

نواب ذوالفقار علی مگسی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیاسی جماعتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔ یہی سیاسی عمل ہے اور جمہوریت میں ایسا ہوتا رہتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’سیاسی جماعت بنانا ہر ایک کا سیاسی حق ہے۔ لیکن، نئی سیاسی جماعت صوبے کی دیگر جماعتوں کےلئے کوئی چیلج ہرگز نہیں ہے‘‘۔

نواب مگسی کے مطابق، ’’نئی جماعت کو استحکام حاصل کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ پرانی جماعتوں کو نئی پارٹی کے قیام سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ نئی جماعت صوبے کی سطح کی جماعت ہوگی اس کے اثرات وفاق تک نہیں پہنچیں گے‘‘۔

بقول ان کے، ’’یہ بلوچستان کی سطح کی پارٹی ہے اس کے اثرات دیگر صوبوں یا وفاق تک پہنچنے میں وقت لگے گا‘‘۔

بلوچستان کے معروف دانشور پروفیسر نادر بخش کا کہنا تھا کہ جمہوریت بنیادی طور پر عوام کی شرکت کا نام ہے؛ اور چونکہ بلوچستان ایک مختلف صورتحال سے گزر رہا ہے، اس لئے اس جماعت کے منظر عام پر آنے کا مطلب ہے کہ بلوچستان کے عوام نے جمہوری نظام میں شرکت کا آغاز کر دیا ہے‘‘۔

اُن کے الفاظ میں، ’’اس جماعت کے قیام سے ان عوام کو جو کسی دوسرے پلیٹ فارم سے بولنا نہیں چاہتے یا بول نہیں سکتے انھیں ایک پلیٹ فام مہیا ہوگیا ہے۔ اب یہ پلیٹ فام کس حد تک کامیاب ہوتا ہے یہ بات آئندہ چند ماہ میں سامنے آ جائے گی‘‘۔

پروفیسر نادر بخش نے بھی نواب ذوالفقار مگسی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ نئی سیاسی جماعت خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے۔ یہ پرانی اور مستحکم سیاسی جماعتوں کے لئے کبھی خطرہ نہیں بنتں۔

پروفیسر نادر بخش کے مطابق نئی سیاسی جماعت کے اثرات بلوچستان سے باہر نہیں جا سکیں گے؛ اور براہ راست فیڈریشن کو متاثر نہیں کرسکیں گے۔ لیکن، اگر صوبے میں انھیں توجہ ملی تو شائد صوبے کی نمائندہ جماعت بن جائے۔

انھوں نے نئی سیاسی جماعت کے مستقبل کے حوالے سے کہا کہ ادارے جب اپنی جگہ کام کرنے لگیں، اور سیاسی جماعتیں چھلنی سے گز رہی ہوں؛ تو پھر مستحکم ہو جاتی ہیں۔ اور یہی سیاسی عمل کا خاصہ ہے۔ عوام میں ان کی مقبولیت ہی ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔