پاکستانی فوج کے سربراہ نے بتایا کہ سوئی میں قائم فوجی چھاؤنی کو ختم کر کے ملڑی کالج قائم کیا گیا تھا اور اب صوبے میں کوئٹہ کے علاوہ کوئی فوجی چھاؤنی نہیں ہے۔
کوئٹہ —
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں فوجی اہلکار آپریشن کا حصہ نہیں اور قیام امن کے لیے پولیس اور فرنٹئیر کور صوبائی حکومت کے مشورے کے مطابق کام کر رہی ہیں۔
قدرتی گیس کی دولت سے مالا مالا بلوچستان کے ضلع سوئی میں قائم کیے گئے کیڈ ٹ کالج کی سالانہ تقریب سے جمعہ کو خطاب کرتے ہوئے جنر ل کیانی نے کہا کہ فوج صوبے میں صرف ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے۔
’’فوج کا ایک بھی سپاہی صوبے کے کسی بھی علاقے میں آپریشن نہیں کر رہا ہے تاہم امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے فوج، پولیس اور ایف سی کو ہر ممکن معاونت فراہم کی جا رہی ہے جس میں بلوچستان پولیس کی جدید طرز پر تر بیت اور مو ثر ہتھیاروں کی فراہمی شامل ہے۔ بلوچستان میں امن وامان کی صور تحال کو بہتر بنانے کے لیے کارروائیاں فر نٹئیرکور، پولیس اور لیویز کر ر ہی ہے۔‘‘
جنر ل کیانی نے بتایا کہ سوئی میں قائم فوجی چھاؤنی کو ختم کر کے ملڑی کالج قائم کیا گیا تھا اور اب صوبے میں کوئٹہ کے علاوہ کوئی فوجی چھاؤنی نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بلوچستان سے فوج میں شامل ہونے والے جوانوں اور افسران کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ صوبے کی پسماندگی اور غر بت کی بنیادی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔
انہوں نے بلوچ قبائل کے قائدین سے اپیل کی کہ وہ آپس کے جھگڑے ختم کر کے جہالت کے خلاف حکومت کی جانب سے شروع کی گئی جدوجہد میں معاونت کریں۔
’’آﺅ ہم سب مل کر جہالت سے نفرت کریں، آﺅ ہم سب م لکر غربت سے نفرت کر یں، آﺅ ہم سب مل کر انسانوں کو جوڑیں، یہ جو قبائل جھگڑوں میں پڑے ہیں آﺅ ہم سب مل کر بھائیوں کی طرح اپنے بچوں کی پرورش کریں۔‘‘
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ ایک عشرے سے خراب ہے بالخصوص قدرتی وسائل سے مالامال صوبے کے دو اضلاع کو ہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بلوچ مسلح نوجوان اکثرو بیشتر ایف سی ، پولیس اور لیویز پر جان لیوا حملے کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں امن وامان کی صورتحال خراب رہتی ہے۔
تشدد کے پے درپے واقعات سے ان دونوں اضلاع سے جہاں لاکھوں کی تعداد میں مری اور بگٹی قبائل کے لوگ ملک کے مختلف شہروں میں خیمہ بستیوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں وہیں یہاں ہونے والے خون ریز واقعات میں سیکورٹی فورسز کے سینکڑوں اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
قدرتی گیس کی دولت سے مالا مالا بلوچستان کے ضلع سوئی میں قائم کیے گئے کیڈ ٹ کالج کی سالانہ تقریب سے جمعہ کو خطاب کرتے ہوئے جنر ل کیانی نے کہا کہ فوج صوبے میں صرف ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے۔
’’فوج کا ایک بھی سپاہی صوبے کے کسی بھی علاقے میں آپریشن نہیں کر رہا ہے تاہم امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے فوج، پولیس اور ایف سی کو ہر ممکن معاونت فراہم کی جا رہی ہے جس میں بلوچستان پولیس کی جدید طرز پر تر بیت اور مو ثر ہتھیاروں کی فراہمی شامل ہے۔ بلوچستان میں امن وامان کی صور تحال کو بہتر بنانے کے لیے کارروائیاں فر نٹئیرکور، پولیس اور لیویز کر ر ہی ہے۔‘‘
جنر ل کیانی نے بتایا کہ سوئی میں قائم فوجی چھاؤنی کو ختم کر کے ملڑی کالج قائم کیا گیا تھا اور اب صوبے میں کوئٹہ کے علاوہ کوئی فوجی چھاؤنی نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بلوچستان سے فوج میں شامل ہونے والے جوانوں اور افسران کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ صوبے کی پسماندگی اور غر بت کی بنیادی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔
انہوں نے بلوچ قبائل کے قائدین سے اپیل کی کہ وہ آپس کے جھگڑے ختم کر کے جہالت کے خلاف حکومت کی جانب سے شروع کی گئی جدوجہد میں معاونت کریں۔
’’آﺅ ہم سب مل کر جہالت سے نفرت کریں، آﺅ ہم سب م لکر غربت سے نفرت کر یں، آﺅ ہم سب مل کر انسانوں کو جوڑیں، یہ جو قبائل جھگڑوں میں پڑے ہیں آﺅ ہم سب مل کر بھائیوں کی طرح اپنے بچوں کی پرورش کریں۔‘‘
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ ایک عشرے سے خراب ہے بالخصوص قدرتی وسائل سے مالامال صوبے کے دو اضلاع کو ہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بلوچ مسلح نوجوان اکثرو بیشتر ایف سی ، پولیس اور لیویز پر جان لیوا حملے کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں امن وامان کی صورتحال خراب رہتی ہے۔
تشدد کے پے درپے واقعات سے ان دونوں اضلاع سے جہاں لاکھوں کی تعداد میں مری اور بگٹی قبائل کے لوگ ملک کے مختلف شہروں میں خیمہ بستیوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں وہیں یہاں ہونے والے خون ریز واقعات میں سیکورٹی فورسز کے سینکڑوں اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔