تلور کا غیر قانونی شکار کے خلاف سخت کارروائی کا حکم

بلوچستان میں تلور کا غیر قانونی شکار ۔ فائل فوٹو

اس پرندے کو عالمی سطح پر معدومی کے خطرے سے دوچار پرندوں کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ان کی تعداد دس ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔

ستارکاکڑ

پاکستان کے جنوب مغر بی صوبے بلوچستان کی اعلیٰ عدالت نے ضلع ژوب میں تلور کے غیر قانونی شکار کرنے والے افراد کے خلاف متعلقہ انتظامیہ کو سخت کاروائی کی ہدایت کردی ہے ۔

بلوچستان ہائیکورٹ کے دورکنی بنچ نے یہ ہدایت انٹر نیشنل ہو بارا فاﺅنڈیشن کی جانب سے عدالت میں دائر کردہ درخواست پردی ، درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ضلع ژوب میں غیر قانونی شکاریوں سے مقامی انتظامیہ نے 75 شکار کئے گئے تلور برامد کئے ہیں۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعاکی کہ مقامی انتظامیہ کو غیر قانونی شکار کرنے والی پارٹیوں کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی جائے ۔

ہائیکورٹ کے دو رُکنی بنچ نے عدالت میں موجود محکمہ جنگلی حیات بلوچستان کے افسران سے سوال کیا کہ محکمہ جنگلی حیات کے افسران کی متعلقہ ضلع میں تعیناتی کے باوجود شکاری پارٹیاں اتنی بڑی تعداد میں ان پر ندوں کا کیوں شکار کر رہے ہیں۔

عدالت نے چیف کنزرویٹر افسرنارتھ کو ہدایت کی کہ قبضے میں لئے گئے تلور کو محفوظ کرنے کےلئے اقدامات کئے جائیں اور غیر قانونی شکار میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے ۔

مقامی انتظامیہ کے مطابق عدالت عالیہ کے فیصلے پر عملدر آمد شروع کر دیاگیا ہے اور دو دن دوران شکار کئے گئے مزید چالیس تلور برامد کر لئے گئے ہیں۔

انتظامیہ کا مزید کہنا ہے کہ ضلع ژوب سے قبائلی علاقے سمبازہ تک تلور کی شکار کےلئے آنے والی تقریباً دوسو پارٹیوں نے کیمپ لگا دئیے ہیں ، اب تک ڈھائی ہزار سے زائد قیمتی پرندوں کا شکار کیاجاچکا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

شکار کیے گئے تلور

پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے میں ہر سال وسطی ایشائی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد تلور مو سم سر ما سے پہلے ضلع ژوب کے علاقوں سے گزر تے اور موسم بہار کے آغاز پر واپس وسطی ایشائی ریاستوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس چار ماہ کے دوران عرب شیوخ وزارتِ خارجہ کے خصوصی اجازت ناموں کے ساتھ اپنے مقامی ملازمین سمیت بلوچستان ، خیبر پختوا اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں ان پر ندوں کا تربیت شدہ بازوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔

گزشتہ سال پاکستان کی سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کی تھی تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف اپیل پر اعلیٰ عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے اس پابندی کو کالعدم قراردے دیتے ہوئے محدود پیمانے پر اس پرندے کے شکار کی اجازت دے دی ہے ۔

اس پرندے کو عالمی سطح پر معدومی کے خطرے سے دوچار پرندوں کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ان کی تعداد دس ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔