بلوچستان: حب میں اخبارات کے دفاتر پر دستی بم حملے

حکام کے مطابق، پریس کلب اور دیگر دو دفاتر ایک ہی عمارت میں واقع ہیں۔ تاہم، رات اور دفاتر بند ہونے کے باعث، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ادھر، ’بلوچ لبریشن آرمی‘ کے ترجمان، جیئند بلوچ نے نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے حب چوکی میں اخبارات کے دفتر پر ہونے والے دستی بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے

بلوچستان کے صنعتی شہر، حب میں نامعلوم مسلح افراد نے میڈیا کے دفاتر پر دستی بم سے حملہ کیا۔ تاہم، اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

پولیس حکام کے مطابق، ’’حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے، جنہوں نے حب پریس کلب، جیو نیوز، روزنامہ جنگ کے نمائندہ اور روزنامہ بولان کے دفاتر پر دستی بم پھینکا، جو زوردار دھماکے سے پھٹا، جس کی آواز دور دور تک سُنی گئی‘‘۔

حکام کے بقول، ’’پریس کلب اور دیگر دو دفاتر ایک ہی عمارت میں واقع ہیں۔ تاہم، رات اور دفاتر بند ہونے کے باعث، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا‘‘۔

دوسری طرف، ایک کالعدم بلوچ عسکری تنظیم، ’یونائیٹڈ بلوچ آرمی‘ کے ترجمان، مرید بلوچ نے نامعلوم مقام سے سٹلائیٹ فون کے ذریعے میڈیا کو بتایا کہ ’’یونائیٹڈ بلوچ آرمی بلوچستان میں میڈیا کے کردار کو قابض پاکستانی ریاست کی بلوچ کش پالیسیوں کا حصہ قرار دے کر، پرنٹ میڈیا کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کرتی ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’یونائیٹڈ بلوچ آرمی بلوچستان میں پرنٹ میڈیا سے تمام صحافیوں سمیت وابستہ اہلکاروں کو خبردار کرتی ہے کہ اخبارات کے دفتروں سے دور رہیں، تمام پریس کلبوں سے دور رہیں، تمام ہاکر اخبارات کی ترسیل اور ٹرانسپورٹر اخبارات کی ترسیل بند کریں اور اخبار فروش حضرات اپنی دوکانوں میں اخبارات کی فروخت کو بند کریں، بصورت دیگر، ایسے افراد کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی جس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے‘‘۔

اس سے پہلے، ’بلوچستان لبریشن فرنٹ‘ کے ترجمان، گہرام بلوچ نے میڈیا بائیکاٹ حوالے سے دیے گئے الٹی میٹم کی میعاد کے خاتمے پر اپنی پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بی ایل ایف کی میڈیا الٹی میٹم کی میعاد 24اکتوبر کو ختم ہوگئی ہے۔ اب تنظیم بلوچستان بھر میں صحافیوں، میڈیا ہاؤسز، ٹی وی کیبل آپریٹرز اور اخباری صنعت سے وابستہ تمام اداروں و افراد کے خلاف اپنی کارروائیوں کا آغاز آج (بُدھ) سے شروع کرے گی‘‘۔

ان کالعدم تنظیموں کی دھمکیوں کے بعد بُدھ کو اخبارات چھپنے کے باوجود تقسیم نہیں کئے جا سکے، جبکہ پریس کلب کوئٹہ میں بھی کسی قسم کی سرگرمی نہیں ہوئی؛ اگرچہ کلب کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

اُدھر پنجگور کے صحافی واجہ محمد افضل نے وی او اے کو بتایا ہے کہ کالعدم عسکری تنظیموں کی طرف سے صحافیوں کو دھمکیوں کے ساتھ ہی پریس کلب پنجگور بند کر دیا گیا؛ اور اب مقامی صحافیوں نے گھر سے نکلنا بھی بہت محدود کر لیا ہے۔

کوئٹہ میں، آئی جی پولیس، معظم جاہ انصاری کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بعض کالعدم تنظیموں کی جانب سے اخبارات اور میڈیا ہاؤسز کو دی جانے والی دھمکیوں کے نتیجے میں اخبارات کی ترسیل اور تقسیم کی بندش سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

صوبائی حکومت کے ادارہ ٴتعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ سکریٹری اطلاعات، عبدالفتح بھنگر، پولیس حکام اور مختلف صحافتی تنظیموں کے نمائندوں، اخبار مالکان اور انجمن اخبار فروشاں کے عہدےداروں نے اجلاس میں شرکت کی۔

اس موقع پر میڈیا ہاؤسز، پریس کلبز، اخبارات کے دفاتر، اخبار مارکیٹ اور صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے مختلف تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔ آئی جی پولیس نے کہا کہ صوبائی حکومت صحافتی اداروں اور اس سے وابستہ افراد کے بھرپور تحفظ کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔

ذرائع کے مطابق، اجلاس میں طے پایا کہ صحافتی اداروں کی مشاورت سے پولیس اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے میڈیا ہاؤسز، اخبارات کے دفاتر، پریس کلبز، اخبار مارکیٹ اور صحافیوں اور اخبار فروشوں کو ’فول پروف‘ سکیورٹی کی فراہمی کےلئے فوری طور پر بھرپور اقدامات کئے جائیں گے اور اخبارات کی ترسیل اور تقسیم میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دی جائےگی۔

ملک کے اس جنوب مغربی صوبے میں اس سے پہلے بھی صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور صوبے کے مختلف علاقوں میں تقریباً تین درجن صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے دفاتر پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔

ادھر، ’بلوچ لبریشن آرمی‘ کے ترجمان، جیئند بلوچ نے بھی نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے حب چوکی میں اخبارات کے دفتر پر ہونے والے دستی بم حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ ’’آج حب میں اخبارات کے دفاتر پر دستی بم حملہ ایک تنبیہ ہے کہ صحافتی تنظیموں اور تمام اخبارات و الیکٹرانک میڈیا اور کیبل مالکان پر اس موقع پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ریاست کے دباؤ سے آزاد ہو کر زمینی حقائق کے حوالے سے اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کریں‘‘۔