بلوچستان: مخلوط حکومت کی تشکیل پر تین جماعتوں میں اتفاق

بلوچستان اسمبلی (فائل فوٹو)

عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی سابق حکومت میں شامل جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ یہ تینوں جماعتیں باہمی مشورے سے کریں گی۔
پاکستان میں 11 مئی کے انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور آپس میں رابطے جاری ہیں۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بھی کسی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی ہے اور یہاں بھی مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے رابطوں میں تیزی آئی ہے۔

اسمبلی میں عددی اعتبار سے تین بڑی جماعتوں نے مخلوط حکومت تشکیل دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد صوبے کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوشش کرنا ہے۔

ان جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ ن، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مخلوط حکومت کے سربراہ کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہوگا۔

’’بنیادی طو پر ہم نے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے انڈرسٹینڈنگ کی پھر ہم دونوں نے مل کر ن لیگ سے بات کی اور ہماری خواہش تھی کہ ہم تینوں جماعتیں بنیاد بنا کر حکومت میں جاسکیں اور اس میں ہم کامیاب ہوگئے۔۔۔ ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہم اختلافات میں نہ پڑیں کیونکہ بلوچستان اس وقت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔‘‘

عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی سابق حکومت میں شامل جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ یہ تینوں جماعتیں باہمی مشورے سے کریں گی۔

بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 65 ہے اور حکومت تشکیل دینے کے لیے سادہ اکثریت یعنی 33 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ 11 مئی کے انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کی 51 عام نشستوں میں سے 50 پر الیکشن ہوا تھا۔ اس وقت مسلم لیگ ن کے پاس صوبائی اسمبلی میں 11، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے پاس دس اور نیشنل پارٹی کے پاس نو نشستیں ہیں۔

علاوہ ازیں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے چھ، بی این پی مینگل گروپ نے دو، مسلم لیگ ق نے تین نشستیں حاصل کی ہیں جب کہ عوامی نیشنل پارٹی، وحدت المسلمین اور جاموٹ قومی موومنٹ کا ایک، ایک امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں نو آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جن میں دو مسلم لیگ ن اور ایک نیشنل پارٹی میں شامل ہوگیا۔

ادھر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے صوبے میں احتجاج کا سلسلہ ہفتے کو بھی جاری رہا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے نکالی جانے والی احتجاجی ریلی کے شرکا نے بعد میں صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر دھرنا دیا۔