پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے کم از کم 20 مزدور ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔
یہ مزدور تربت کے علاقے میں سہراب ڈیم سے ملحقہ ایک تعمیراتی کے منصوبے پر کام کے لیے وہاں موجود تھے۔
حکام کے مطابق یہ مزدور کیمپ میں سو رہے تھے کہ رات دو بجے کے لگ بھگ 20 نامعلوم مسلح افراد نے اُن پر حملہ کر دیا۔
ہلاک ہونے والوں میں سے 16 کا تعلق صوبہ پنجاب جب کہ چار کا صوبہ سندھ ہے۔
ان مزدور کی حفاظت پر لیویز فورس کے اہلکار تعینات تھے لیکن اطلاعات کے مطابق بڑی تعداد میں حملہ آوروں کو دیکھ کر وہ وہاں سے فرار ہو گئے۔
صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی وجہ یہ تھی مزدوروں کی حفاظت پر تعینات اہلکاروں نےجوابی کارروائی نہیں کی۔
’’میں نے اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے، ہم اُن کے خلاف محکمانہ کارروائی کریں گے۔ لیویز اور بلوچستان کی پولیس فورس میں اس طرح کے بزدلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ وہ خود پنجاب کے ضلع صادق آباد جائیں گے جہاں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر مزدور اس حملے میں مارے گئے۔
’’پنجاب کے لوگوں کو یہ پیغام دینے جا رہے ہیں کہ یہ کسی بلوچ نہیں کیا، یہ کسی پنجاب کے خلاف نہیں ہوا۔ یہ دہشت گردوں کی کارروائی ہے۔‘‘
بلوچستان میں اس سے قبل بھی تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والوں خصوصاً دوسرے صوبوں سے آ کر مزدوری کرنے والوں پر ہلاکت خیز حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
گزشتہ اکتوبر میں بھی ساکران کے علاقے میں کم ازکم آٹھ مزدوروں کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا اور بعد ازاں ان کی لاشیں قریبی پہاڑیوں سے برآمد ہوئی تھیں۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی ایک تنظیم نے اپنے تحریری بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
حکام ایسے حملوں کا الزام کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں پر عائد کرتے آئے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی مکمل اور فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔