سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے امید لے کر واپس آئے ہیں اور صوبے کے مفادات کے لیے اگر کسی بھی سیاسی جماعت نے ان سے اتحاد کرنا چاہا تو وہ اتحاد کر لیں گے۔
کوئٹہ —
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے صوبہ بلوچستان میں عام انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے حکومت نے کسی ٹھوس حکمت عملی کی بجائے صرف جزوقتی اقدامات کیے ہیں۔
اتوار کو چار سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پہلی بار کوئٹہ پہنچنے پر اختر مینگل نے صحافیوں سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ اب بھی صوبے میں لوگوں کو مارا جا رہا ہے اور ان شرپسندوں کی پشت پناہی سکیورٹی اور ریاستی ادارے کررہے ہیں۔
’’ان خدشات کا میں نے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں بھی کیا تھا۔ اگر اسٹبلشمنٹ اور حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مزید لاشیں گرانے سے ہمارے خدشات دور ہوجائیں گے تو ہم ان کو بے وقوف نہیں کہیں گے، دنیا ان کو بے وقوف کہے گی۔۔۔ بلوچستان میں اب بھی ایسے علاقے ہیں جو نو گو ایریاز ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن جاری ہے۔‘‘
اس سے قبل بھی بلوچ رہنماؤں کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر ایسے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جنہیں فوج اور فرنٹیئر کور کے اعلیٰ عہدیداران مسترد کرتے ہوئے کالعدم عسکری تنظیموں کو تشدد کی کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے امید لے کر واپس آئے ہیں اور صوبے کے مفادات کے لیے اگر کسی بھی سیاسی جماعت نے ان سے اتحاد کرنا چاہا تو وہ اتحاد کر لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام انتخابات میں کسی بھی دھاندلی کو قبول نہیں کریں گے۔
ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے عام انتخابات 11 مئی کو منعقد ہورہے ہیں اور گزشتہ ماہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے کوئٹہ میں بلوچستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات میں ان سے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کی درخواست کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ صوبے میں آزادانہ، منصفانہ انتخابات ان کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے کے لیے انھیں بلوچوں کی حمایت درکار ہوگی۔
اتوار کو چار سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پہلی بار کوئٹہ پہنچنے پر اختر مینگل نے صحافیوں سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ اب بھی صوبے میں لوگوں کو مارا جا رہا ہے اور ان شرپسندوں کی پشت پناہی سکیورٹی اور ریاستی ادارے کررہے ہیں۔
’’ان خدشات کا میں نے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں بھی کیا تھا۔ اگر اسٹبلشمنٹ اور حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مزید لاشیں گرانے سے ہمارے خدشات دور ہوجائیں گے تو ہم ان کو بے وقوف نہیں کہیں گے، دنیا ان کو بے وقوف کہے گی۔۔۔ بلوچستان میں اب بھی ایسے علاقے ہیں جو نو گو ایریاز ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن جاری ہے۔‘‘
اس سے قبل بھی بلوچ رہنماؤں کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر ایسے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جنہیں فوج اور فرنٹیئر کور کے اعلیٰ عہدیداران مسترد کرتے ہوئے کالعدم عسکری تنظیموں کو تشدد کی کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے امید لے کر واپس آئے ہیں اور صوبے کے مفادات کے لیے اگر کسی بھی سیاسی جماعت نے ان سے اتحاد کرنا چاہا تو وہ اتحاد کر لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام انتخابات میں کسی بھی دھاندلی کو قبول نہیں کریں گے۔
ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے عام انتخابات 11 مئی کو منعقد ہورہے ہیں اور گزشتہ ماہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے کوئٹہ میں بلوچستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات میں ان سے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کی درخواست کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ صوبے میں آزادانہ، منصفانہ انتخابات ان کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے کے لیے انھیں بلوچوں کی حمایت درکار ہوگی۔