عید الفطر کے موقع پر لاپتا افراد کے اہل خانہ نے کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی، اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کا مطالبہ بھی دہرایا۔
پاکسستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان، خصوصاً اس کا دارالحکومت کوئٹہ، گزشتہ کئی ماہ سے شدت پسند تنظیموں کی مہلک کارروائیوں کی زد میں ہے، جس کی وجہ سے اس مرتبہ رمضان کے آخری ایام اور عید الفطر کے موقع پر بھی عوامی مقامات پر معمول کی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
کوئٹہ کے شہریوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سلامتی سے متعلق خدشات کے باعث عید کی خوشیاں اور رونقیں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔
شعبہ درس و تدریس سے منسلک صادق ژڑک کا کہنا تھا کہ عدم تحفظ کے احساس نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔
’’عید کا مزہ اس لیے نہیں کہ سب لوگ یہی سوچ رہے ہیں کہ کسی وقت خدا نا کرے کوئی بم کا شکار ہو سکتا ہے یا کوئی اور واقعہ ہو سکتا ہے ... اس لیے عید کے موقع پر بھی کسی کے چہرے پر پہلے جیسی خوشیاں نظر نہیں آ رہی ہیں۔‘‘
ایک مقامی ادبی تنظیم سے وابستہ نعیم آزاد نے بھی صوبے میں امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے عوام تذبذب کا شکار ہیں۔
’’ہمارے شہر کوئٹہ یا تقریباً پورے خطے میں بد امنی ہے ... جس کی وجہ سے لوگ عید تو درکنار خوشی بھی بھول چکے ہیں۔‘‘
کوئٹہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پُرتشدد کارروائیوں کا خوف اپنی جگہ مگر روز بروز بڑھتی مہنگائی بھی اُن کے معمولات زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔
شہر میں ایک موٹر سائیکل اسٹینڈ پر ملازم عبدالسلام نے چاند رات کو خریداری کا احوال بیان کرتے ہوئے مہنگائی کا تقاضا کیا۔
’’اگر میں 1,300 روپے کا جوتا خریدوں تو 5,000 روپے میری ماہانہ تنخواہ ہے، 5,000 میں گھر چلائیں یا جوتا لیں ... اس مہنگائی میں کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
سرکاری ملازم گلزار بلوچ نے بھی معاشی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا مہنگائی نے ’’جینا اجیرن کر دیا ہے‘‘۔
’’ہماری جتنی تنخواہ ہے اس میں ہم سوائے بچوں (کے لیے خریداری) کے کچھ بھی تیاری نہیں کر سکے، اپنے لیے تو ایک جوڑا بھی نہیں خرید سکے۔‘‘
اُدھر پیر کو عید الفطر کے موقع پر لاپتا افراد کے اہل خانہ نے کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی، اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کا مطالبہ بھی دہرایا۔
بلوچ قوم پرست جماعتوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں کا الزام ہے کہ بیشتر لاپتا افراد سلامتی سے متعلق سرکاری اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدکی کا شکار ہیں، لیکن متعلقہ عہدے دار ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔
لاپتا افراد کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے، اور عدالت اس سلسلے میں صوبے میں سرگرم نیم فوجی فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے عہدے داروں کی کئی مرتبہ سرزنش بھی کر چکی ہے۔
کوئٹہ کے شہریوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سلامتی سے متعلق خدشات کے باعث عید کی خوشیاں اور رونقیں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔
شعبہ درس و تدریس سے منسلک صادق ژڑک کا کہنا تھا کہ عدم تحفظ کے احساس نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔
’’عید کا مزہ اس لیے نہیں کہ سب لوگ یہی سوچ رہے ہیں کہ کسی وقت خدا نا کرے کوئی بم کا شکار ہو سکتا ہے یا کوئی اور واقعہ ہو سکتا ہے ... اس لیے عید کے موقع پر بھی کسی کے چہرے پر پہلے جیسی خوشیاں نظر نہیں آ رہی ہیں۔‘‘
ایک مقامی ادبی تنظیم سے وابستہ نعیم آزاد نے بھی صوبے میں امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے عوام تذبذب کا شکار ہیں۔
’’ہمارے شہر کوئٹہ یا تقریباً پورے خطے میں بد امنی ہے ... جس کی وجہ سے لوگ عید تو درکنار خوشی بھی بھول چکے ہیں۔‘‘
کوئٹہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پُرتشدد کارروائیوں کا خوف اپنی جگہ مگر روز بروز بڑھتی مہنگائی بھی اُن کے معمولات زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔
شہر میں ایک موٹر سائیکل اسٹینڈ پر ملازم عبدالسلام نے چاند رات کو خریداری کا احوال بیان کرتے ہوئے مہنگائی کا تقاضا کیا۔
’’اگر میں 1,300 روپے کا جوتا خریدوں تو 5,000 روپے میری ماہانہ تنخواہ ہے، 5,000 میں گھر چلائیں یا جوتا لیں ... اس مہنگائی میں کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
سرکاری ملازم گلزار بلوچ نے بھی معاشی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا مہنگائی نے ’’جینا اجیرن کر دیا ہے‘‘۔
’’ہماری جتنی تنخواہ ہے اس میں ہم سوائے بچوں (کے لیے خریداری) کے کچھ بھی تیاری نہیں کر سکے، اپنے لیے تو ایک جوڑا بھی نہیں خرید سکے۔‘‘
اُدھر پیر کو عید الفطر کے موقع پر لاپتا افراد کے اہل خانہ نے کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی، اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کا مطالبہ بھی دہرایا۔
بلوچ قوم پرست جماعتوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں کا الزام ہے کہ بیشتر لاپتا افراد سلامتی سے متعلق سرکاری اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدکی کا شکار ہیں، لیکن متعلقہ عہدے دار ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔
لاپتا افراد کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے، اور عدالت اس سلسلے میں صوبے میں سرگرم نیم فوجی فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے عہدے داروں کی کئی مرتبہ سرزنش بھی کر چکی ہے۔