پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں بسوں کے مسافروں پر فائرنگ سے ہلاکتوں کی تعداد 22 ہو گئی ہے۔
پولیس کے مطابق مستونگ کے قریب حملہ آوروں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے تین افراد کو کوئٹہ لایا گیا تھا جو ہفتہ کی صبح دم توڑ گئے۔
مرنے والوں کے لواحقین نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لاشوں کو وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤس کے سامنے رکھ کر کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا لیکن وزیراعلیٰ کی طرف سے قاتلوں کو ہر صورت گرفتار کیے جانے کی یقین دہانی کے بعد یہ لوگ میتوں کو تدفین کے لیے اپنے اپنے علاقوں کی طرف روانہ ہو گئے۔
جمعہ کی شب ضلع مستونگ کے ایک دور دراز علاقے میں بھاری خودکار ہتھیاروں سے لیس مسلح افراد نے کوئٹہ سے کراچی جانے والی دو بسوں کو روکا اور اُن میں سوار لگ بھگ 35 مسافروں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عہدیداروں کے مطابق حملہ آوروں نے سکیورٹی فورسز کی ’یونیفارم‘ پہن رکھی تھی۔
مسلح افراد نے یرغمال بنائے گئے افراد پر فائرنگ کی جس سے 19 افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔ سکیورٹی فورسز نے پانچ افراد کو یہاں سے بازیاب بھی کروایا۔
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے صحافیوں کو بتایا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کر رکھی ہے اور دہشت گردوں کے خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہے گا۔
وفاقی حکومت نے بھی اس آپریشن کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
مستونگ میں پیش آنے والے ہلاکت خیز واقعے کے خلاف ہفتہ کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں مکمل شٹرڈاﺅن ہڑتال رہی، شہر کی تمام دُکانیں، مارکیٹیں اور چھوٹے بڑے کاروباری مر اکز بند رہے جب کہ ٹریفک بھی معمول سے کافی کم رہی۔
اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم "یونائیٹڈ بلوچ آرمی" نے قبول کرتے ہوئے اسے حالیہ دنوں میں قلات اور مستونگ کے علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کا ردعمل ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے اس حملے کی اطلاع ملتے ہی ایک بیان میں اس واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس میں ملوث عناصر کو فوری گرفتار کرنے کی ہدایت کی۔