بلوچستان کا سالانہ میزانیہ برائے 2019-20 بدھ کی شام کو اسمبلی میں پیش کر دیا گیا، جس کی کل مالیت 419 ارب روپے سے زائد ہے۔ بجٹ میں 48 ارب روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بُلیدی نے اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں سماجی شعبے کی ترقی اور سوشل سیکورٹی کو کلیدی اہمیت دی ہے۔
بجٹ میں امن و امان کے لیے 44 ارب 70 کروڑ، صحت کے لیے 34.18 ارب، ثانوی تعلیم کے لیے 55.72 ارب، ہائیر ایجوکیشن کے لیے 15.95 ارب، معدنیات کے شعبے کے لیے 2 ارب 50 کروڑ، مال و مویشی اور جنگلات کے لیے 2 ارب 98 کروڑ، پانی کے منصوبوں کے لیے 28 ارب، صنعت اور توانائی کے لیے 19 ارب 7 کروڑ، کھیل و ثقافت اور سیاحت کے لیے 3 ارب 60 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ میں سالانہ ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 100 ارب روپے سے زائد ہے۔ صوبے میں آئندہ مالی سال کے دوران 150 نئے وفاقی منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ بیرونی امداد اور غیر ملکی تعاون کے 100 منصوبے بھی بجٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔
بجٹ میں بلوچستان اسمبلی کی خواتین ارکان کے کم عمر بچوں کے لیے ڈے کیئر اور اسی طرح کا ایک سینٹر سول سیکرٹریٹ میں بھی قائم کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔
بجٹ میں روزگار کے 5445 نئی مواقع پید کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے جن میں سے 1057 اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے۔ 786 اسکولوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے اور واش رومز کی تعمیر کے لیے 500 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صوبے کے 30 اضلاع میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے لیویز اور پولیس فورس میں 1150 نئی اسامیاں پیدا کی جائیں گی۔ گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کے لیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ کے دوران حزب اختلاف کے ارکان اپنی ترقیاتی اسکمیں سالانہ بجٹ میں شامل نہ کیے جانے کے خلاف اسمبلی کے اندر احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔
بلوچستان کی سابق حکومت نے 2018-19 کے لیے 352.3 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا۔