بلوچ طلبہ کا احتجاج: 'یہاں جمہوریت ہے آپ ایسے کسی کو غائب نہیں کر سکتے'

بلوچ طالبِ علم حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے کئی روز سے بلوچ طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔

پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔جمہوریت میں کسی کو ایسے غائب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر بلوچ طلبہ کے احتجاجی کیمپ کے دورے کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ بلوچ طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ قابلِ مذمت ہے۔

اُنہوں نے بلوچ طلبہ کو یقین دلایا کہ حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طالبِ علم حفیظ بلوچ گزشتہ کئی روز سے لاپتا ہیں۔ اُنہیں نامعلوم افراد نے گزشتہ ماہ اس وقت حراست میں لے لیا تھا جب وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اکیڈمی سے واپس آ رہے تھے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ وہ بلوچ طلبہ کے تحفظات وزیرِ اعظم تک پہنچائیں گی، اگر کسی کے خلاف کیسز ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کریں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل ڈاکٹر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری اور احتجاجی کیمپ میں شریک دیگر بلوچ طلبہ کے خلاف پولیس نے بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا تھا۔

ایمان زینب مزاری نے اسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا، اُن کا مؤقف تھا کہ پولیس نے بلوچ طلبہ پر لاٹھی چارج کیا حالاں کہ وہ پرامن احتجاج کر رہے تھے۔

ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ اُنہیں مختلف یونیورسٹیز میں بلوچ طلبہ کی پروفائلنگ پر بھی تحفظات ہیں اور وہ ان یونیورسٹیز کو لکھیں گی کہ وہ اس عمل کو فوری طور پر روک دیں۔

اٹارنی جنرل کی طلبہ سے معذرت

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکیل ایمان زینب مزاری سمیت 200 سے زائد بلوچ طلبہ کے خلاف ایف آئی آر اندراج کے خلاف سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بلوچ طلبہ سے معذرت کی اور کیس واپس لینے کی یقین دہانی کروا دی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دے گی۔


اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچ طلبہ کے احتجاج کے بعد ان پر مقدمہ درج کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، آئی جی اسلام آباد احسن یونس اور ایڈیشل سیکریٹری داخلہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بچے ہیں, پرامن بیٹھے ہیں، ان بچوں کو زیادہ توجہ وفاقی حکومت کو دینی چاہیے، وہ اتنے عرصے سے بیٹھے ہیں, ان کے پاس ابھی تک کوئی نہیں گیا، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ ان کو فورمز دیں تاکہ ان کی بات سنی جائے ، یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے۔ بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنا درست نہیں ہے ، میں دیکھوں گا تاکہ حکومت کی جانب سے کوئی ان کے پاس جائے۔ میں بلوچستان کے طلبہ سے معذرت چاہتا ہوں جو کچھ ہوا وہ ہمارے بچے ہیں ان کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیرِاعظم خود وہاں جاتے، کیا ہم ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیں۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس ایف آئی آر کو دیکھ لیں۔ رپورٹ عدالت میں جمع کرا دیں، عدالت بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت مقدمہ خارج نہ کرے بلکہ پولیس کو یہ کام کرنے دے۔ عدالت نے درخواست پر سماعت 21 مارچ تک ملتوی کر دی۔

پس منظر

قائد اعظم یونیورسٹی کے طالبِ علم حفیظ بلوچ کو گزشتہ ماہ آٹھ فروری کو خضدار میں ان کے گھر کے قریب ایک اکیڈمی سے مسلح افراد نے حراست میں لے لیا تھا جہاں وہ بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ خضدار کے تھانے میں دی گئی درخواست کے مطابق اکیڈمی کے بچوں کے سامنے حفیظ بلوچ کو اغوا کیا گیا۔

اس معاملے پر یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ان کے ساتھیوں نے یونیورسٹی میں امن واک کی اور حفیظ کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔

اس بارے میں دیگر بلوچ طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں یونیورسٹی کے اندر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کے موبائل فونز سمیت سوشل میڈیا اکاؤنٹ چیک کیے جاتے ہیں۔

اس معاملہ پر یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔یونیورسٹی رجسٹرار راجہ قیصر کا کہنا ہے کہ اس معاملہ پروہ متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔