سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے عمل درآمد کیس کی سماعت کے موقع پر بحریہ ٹاون کے وکیل نے کراچی سمیت مختلف شہروں میں اراضی کے عوض 485 ارب روپے کی نئی پیشکش کی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کا کہنا ہے کہ تمام رقم 8 سال کے عرصے میں ادا کی جائے گی۔ پیشکش کی منظوری پر بحریہ ٹاؤن 20 ارب کی پہلی قسط ادا کرے گا۔
عمل درآمد سے متعلق سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 21 مارچ کو اس پیشکش پر فیصلہ کرے گا۔
عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری پیشکش میں بتایا گیا کہ بحریہ ٹاون کراچی سپر ہائی وے منصوبہ کے لئے 440 ارب دینے پر تیار ہے۔ دوسری جانب تخت پڑی اراضی کے لئے 22 ارب اور مری میں موجود منصوبے کے لئے 23 ارب روپے دیئے جائیں گے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت ہوئی۔
بحریہ ٹاؤن نے کراچی منصوبے کے لیے کی گئی 440 ارب روپے کی پیشکش بڑھا کر 450 ارب روپے کر دی ہے۔
بحریہ ٹاون کے وکیل علی ظفر کا عدالت میں کہنا تھا کہ 485 ارب 8 برسوں میں ادا کیے جائیں گے۔ پیشکش کی منظوری پر پہلی قسط 20 ارب روپے کی ہو گی۔
پہلے پانچ برسوں میں ماہانہ 2 ارب ادا کیے جائیں گے۔ باقی تین برسوں میں 8.33 ارب روپے کی ماہانہ قسط ادا کی جائے گی۔
بحریہ ٹاؤن کی طرف سے استدعا کی گئی کہ نیب کیسز ختم کیے جائیں اور زمین منتقلی کی فیس اور ٹیکس استثنیٰ بھی دیا جائے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ زمین منتقلی کے قانون کو معطل نہیں کر سکتے، جو ٹیکس اور سرکاری فیس بنتی ہے وہ دینا ہو گی۔
اس موقع پر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے وکیل نے کہا کہ سندھ کی حکومتی شخصیات اور عہدے داروں کے بھی بحریہ ٹاؤن سے متعلق کیسز ختم کیے جائیں۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کی ڈیل بحریہ ٹاؤن سے ہو رہی ہے، سندھ حکومت سے نہیں۔ سندھ حکومت کے خلاف بنائے گئے کیسز میں کارروائی ہو گی۔
بحریہ ٹاون نے یہ بھی بتایا کہ 4 ارب 70 کروڑ سندھ حکومت کو ادا کر دیے گئے ہیں، جب کہ 10 ارب 75 کروڑ روپے سپریم کورٹ کے پاس پہلے ہی جمع ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ پیشکش منظور کر کے زیر قبضہ زمین بحریہ ٹاون کے نام منتقل کی اجازت دے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کی طرف سے کراچی میں 16 ہزار ایکڑ اراضی کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے چار کھرب روپے جمع کرنے کی پیشکش مسترد کر دی تھی۔
بحریہ ٹاون کے معاملے پر نیب کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاون پر ایک ریفرنس کراچی میں، جب کہ چار مزید ریفرنس بھی دائر کیے جائیں گے۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ کم ازکم پانچ سو ارب ادا کر دیں تو ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے، لیکن انہوں نے اس آفر کو قبول نہیں کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 4 مئی 2018 کو کراچی میں سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی اور کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو نیب میں بھیجنے اور تین ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے ذمہ داروں کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔