بحرین: سکیورٹی فورسز کے متنازع امریکی مشیر

بحرین: سکیورٹی فورسز کے متنازع امریکی مشیر

بحرین کی سیکورٹی فورسز کی اصلاح کے لیے امریکی پولیس کے ایک متنازع سابق اعلیٰ افسر کی خدمات مشیر کے طور پر حاصل کی گئی ہیں۔ اس افسر نے جمہوریت کی عوامی تحریک کی پہلی برسی کے موقع پر ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی پر قابو پانے کے لیے رہائشی بستیوں میں آنسو گیس کے استعمال کا دفاع کیا ہے ۔

شیعہ گاؤں میں حالیہ دنوں میں چھاپوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور لوگوں کو شکایت ہے ہر رات آنسو گیس کے حملے ہوتے ہیں۔ بحرین میں حکومت کے مخالفین میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ملک کے سنّی حکمرانوں کا سلوک خراب ہے۔ وہ حکومت سے بار بار کہتے رہے ہیں کہ وہ ان کے محلوں میں آنسو گیس کے حملے بند کرے۔

لیکن جان ٹیمونی جو فلاڈیلفیا اور میامی کی پولیس کے سابق چیف ہیں اور جو آج کل سکیورٹی کے بارے میں بحرین کے حکام کو مشورے دے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ حکومت کے مخالفین کی طرف سے پُر تشدد حملوں میں اضافے کی وجہ سے پولیس افسر جوابی کارروائی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔’’پولیس اپنے اور فسادیوں کے ٹولوں کے درمیان فاصلہ قائم کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کرتی رہی ہے۔ ہنگامہ کرنے والے لوگ، ہر روز پولیس افسروں پر آتشیں گولے، اینٹیں، میخیں اور دوسرے چیزوں سے حملے کرتے رہے ہیں۔‘‘

حکومت کے مطابق، فسادیوں نے 14 فروری کی جمہوری تحریک کی برسی آتے آتے 40 سے زیادہ پولیس افسروں کو زخمی کر دیا۔ کئی افسروں کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ ٹیمونی کہتے ہیں کہ پولیس کی کوشش یہ ہے کہ وہ جوابی کارروائی میں غیر مہلک طریقے استعمال کرے ۔’’اگرچہ آنسو گیس سے بعض ایسے لوگ بھی متاثر ہو جاتے ہیں جو فسادات میں ملوث نہیں ہوتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے دفاع کے لیے گولیاں چلانے کے مقابلے میں، آنسو گیس کہیں زیادہ بہتر ہتھیار ہے۔‘‘

ٹیمونی نے جو امریکہ میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے مشہور ہیں، حکومت مخالف کارکنوں کے ان دعووں کو بھی مسترد کر دیا کہ بحرین کی حکومت نے شہریوں پر زہریلی گیس استعمال کرنا شروع کر دی ہے ۔ انھوں نے کہا’’روزانہ ہمارے ہزاروں پولیس افسر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ خود اس گیس کو چھوتے ہیں اور سونگھتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا شخص نہیں آیا جس نے زہر کی یا نظام تنفس کے مسائل کی شکایت کی ہو۔‘‘

ٹیمونی کو اور برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر جان یاٹس کو بحرین کے انڈیپینڈنٹ کمیشن آف انکوائری کی گذشتہ نومبر میں جاری ہونے والی رپورٹ کی بعض سفارشات پر عمل درآمد میں مدد دینے کے لیے ملازم رکھا گیا تھا ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گذشتہ سال جمہوریت کی تحریک کے ابتدائی مہینوں میں بحرینی حکام نے بہت زیادہ طاقت اور اذیت رسانی کا استعمال کیا تھا ۔

ایک سال قبل بحرین کے شیعہ احتجاجی سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے زیادہ حقوق اور زیادہ نمائندہ حکومت کا مطالبہ کیا۔

تا ہم، ایک مہینے بعد جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فوجیں ملک میں تعینات کر دی گئیں اور تین مہینے کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا، تو ان کی آوازیں بھی خاموش ہو گئیں ۔
بحرین کی پارلیمینٹ کے ایک سینیئر رکن جمال فاخرو کہتے ہیں کہ پولیس کے یہ دونوں بین الاقوامی مشیر، سیکورٹی میں اصلاحات میں مدد دے رہے ہیں۔’’وہ وزارتِ داخلہ اور پولیس کے کام کے طریقوں میں کافی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ وہ بہترین طریقے متعارف کرا رہے ہیں اور ذمہ داریوں کی وضاحت کر رہے ہیں۔‘‘

لیکن بعض دوسرے لوگ، جیسے حزبِ اختلاف کی پارٹی Wa'ad کے ڈپٹی سکریٹری جنرل رادہی محسن الموسوی کہتے ہیں کہ مغربی ملکوں کے عہدے داروں کا تقرر محض ڈھکوسلا ہے ۔
الموسوی کہتے ہیں کہ یو ٹیوب پر حال ہی میں دکھائے جانے والے ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس افسر سویلین باشندوں کو مار رہے ہیں اور گھروں پر جلتی ہوئی چیزیں پھینک رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس افسر غیر قانونی کارروائیاں جاری رکھےہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کے مطابق بی آئی سی آئی، کی انکوائری رپورٹ کے اجرا کے بعد سے اب تک 30 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔’’ان ماہرین کو سمجھنا چاہیئے کہ بحرین کے لوگ پاگل نہیں ہیں کہ وہ ان باتوں پر یقین کر لیں گے جو یہ ماہرین کہتے ہیں۔‘‘

الموسوی کہتے ہیں کہ بحرین کے لیڈروں کو غیر جانبدار انکوائری کی دوسری سفارشات پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے جیسے اس قسم کے حالات پیدا کرنا جن میں قومی مکالمہ ممکن ہو جائے ۔’’ہمارا مسئلہ سیاست ہے اور یہ مسئلہ بحرینیوں کو حل کرنا ہے ۔ میرے خیال میں یہ ماہرین اس حل نہیں کر سکتے۔‘‘

گذشتہ سال حزبِ اختلاف کے گروپ حکومت کے ساتھ مذاکرات سے الگ ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں انہیں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی تھی ۔