سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن سے وصول ہونے والی 460 ارب روپے کی رقم خرچ کرنے کے لیے 11 رُکنی کمیشن قائم کر دیا ہے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کریں گے۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی تعمیر کے لیے زمین کی خریدو فروخت سے متعلق بے ضابطگیاں سامنے آنے پر گزشتہ سال 460 ارب روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ جرمانے کے عوض بحریہ ٹاؤن کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بحریہ ٹاؤن سات سال کے عرصے میں یہ رقم مرحلہ وار سپریم کورٹ آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کا پابند ہے۔ ریکارڈ کے مطابق اب تک 57 ارب روپے کی رقم جمع ہو چکی ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ کے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کمیشن قائم کرنے کا حکم دیا گیا جو بحریہ ٹاؤن سے مرحلہ وار وصول ہونے والی رقم کو سندھ کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کے عمل کی نگرانی کرے گا۔
فیصلے کے مطابق 11 رکنی کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہوگا۔ کمیشن کے سربراہ کی تعیناتی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے۔
سپریم کورٹ کے تشکیل کردہ کمیشن میں گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ کے نمائندے شامل ہوں گے جب کہ اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل سندھ اور چیف سیکرٹری سندھ بھی اس کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
کمیشن میں صوبائی فنانس سیکرٹری، سینئر ممبر ریونیو بورڈ سندھ، نمائندہ آڈیٹر جنرل، اکاؤنٹنٹ جنرل اور اسٹیٹ بینک کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔
کمیشن کی سربراہی کے لیے اگر کسی وجہ سے جج موجود نہ ہو تو اچھی شہرت کے حامل شہری کو بھی کمیشن کا سربراہ بنایا جاسکتا ہے۔
فیصلے کے مطابق گورنر سندھ اچھی شہرت کے حامل شہری کو اپنا نمائندہ مقرر کریں گے اور گورنر سندھ کے نمائندے کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ہو گا نہ کوئی عوامی عہدہ اس کے پاس ہو گا۔ یہی شرائط وزیراعلیٰ سندھ کے نمائندے کے لیے بھی ضروری ہوں گی۔
کمیشن کے پانچ اراکین کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہو گا۔ بقیہ اراکین کمیشن میں حقِ رائے دہی استعمال نہیں کر سکیں گے.
کمیشن کے چیئرمین اور اراکین چار سال کے لیے منتخب ہوں گے۔ کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ اراکین کی مدت پوری ہونے کے بعد نئے ممبران کا تقرر کرے۔
کمیشن کے اجلاس میں کورم پورا کرنا ضروری ہوگا جب کہ اس کا عملہ صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ کمیشن کے کسی فیصلے پر اختلاف کی صورت میں عمل درآمد بینج اس کا حل نکالے گا۔ کمیشن کے تمام اخراجات حکومتِ سندھ برداشت کرے گی۔
فیصلے کے مطابق کمیشن کے چیئرمین اور ممبر کسی بھی وقت عمل درآمد بینچ کی اجازت سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ اگر گورنر اور وزیر اعلیٰ نمائندہ مقرر کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو عمل درآمد بینچ نئے ممبران کا تقرر کرسکتا ہے۔
فیصلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ یکم دسمبر 2020 سے پہلے گورنر اور وزیر اعلیٰ اپنے نمائدے کے بارے میں رجسٹرار کو آگاہ کریں۔ کمیشن اپنا پہلا اجلاس آئندہ برس 25 جنوری کو یا اس سے پہلے منعقد کرے۔
پیسے کا استعمال کیسے ہو گا؟
بحریہ ٹاؤن سے حاصل ہونے والے 460 ارب روپے کے استعمال سے متعلق کہا گیا ہے کہ کمیشن سندھ میں عوامی اہمیت کے حامل منصوبوں کی سفارش کرے گا۔ کسی بھی منصوبے کی نگرانی کے لیے کمیٹی بنائی جائے گی جو کمیشن کو رپورٹ جمع کرائے گی۔
تمام منصوبوں کا آڈٹ کرایا جائے گا اور آڈٹ رپورٹ عمل درآمد بینچ کے سامنے رکھی جائے گی۔ آڈیٹر جنرل پاکستان سالانہ آڈٹ رپورٹ تیار کر کے عمل درآمد بینچ کے سامنے پیش کریں گے اور منصوبہ مکمل ہونے کے بعد اسے سندھ حکومت کے حوالے کردیا جائے گا۔
بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس
بحریہ ٹاؤن کراچی پر ہزاروں ایکڑ زمین سندھ حکومت کے بعض افسران کی ملی بھگت سے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔
2018 میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب حکام کو بحریہ ٹاؤن اور متعلقہ سرکاری ملازمین کے خلاف تحقیقات کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس معاملے پر بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالتی کارروائی میں اس معاملے کے حل کے لیے 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کرتے ہوئے اسے کراچی میں کام کرنے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن عمل درآمد کیس کی سماعت کی تھی، دوران سماعت عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460 ارب روپے جمع کرانے کی پیش کش قبول کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو کام کرنے کی اجازت دے دی۔
عدالت نے قومی احتساب بیورو کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے روکتے ہوئے فیصلہ دیا کہ بحریہ ٹاؤن اپنے پلاٹس فروخت کر سکتا ہے۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن 460 ارب روپے کی رقم سات سال میں ادا کرے گا۔ اقساط میں تاخیر پر بحریہ ٹاؤن چار فی صد سود ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ رقم سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے گی۔ فیصلے کے مطابق نیب کو سندھ حکومت یا بحریہ ٹاؤن کے خلاف آئندہ کوئی بھی کیس دائر کرنے سے قبل پہلے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے اجازت لینی ہو گی۔
اس کیس میں بحریہ ٹاؤن کی طرف سے آنے والے 460 ارب روپے پر تنازع کھڑا ہوگیا تھا اور اس کے بارے میں وفاق اور سندھ حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ رقم انہیں منتقل کی جائے۔ تاہم عدالت نے اس بارے میں اب تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس کے مطابق یہ رقم اب کمیشن کے ذریعے مختلف تعمیراتی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔