داعش کے خلیفہ البغدادي کا نیا روپ ۔۔۔۔ مفرور

موصل کے ان علاقوں سے لوگ محفوظ مقامات کی جانب جا رہے ہیں جہاں سے داعش کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔ جون 2017

مشرق وسطیٰ کی حکومتوں کے لیے داعش أمور کے ایک مشیر ہاشم الہاشم کہتے ہیں کہ اس وقت بغدادی کے لیے سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس کے گرد موجود لوگوں میں سے کوئی 25 لاکھ ڈالروں کے لیے، جو امریکی حکومت نے اس کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے، غداری کرکے اس کی مخبری نہ کر دے۔

داعش، یا اسلام اسٹیٹ کے لیڈر کی خود ساختہ خلافت کے دو اہم شہر موصل اور رقہ گو ابھی اس کے ہاتھ سے پوری طرح نہیں نکلے لیکن وہ پھر بھی اپنا خود ساختہ دارالخلافہ چھوڑ کر فرار ہو چکا ہے۔

عہدے داروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے پکڑ نے یا ہلاک کرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اپنے دو اہم شہروں، یعنی عراق میں موصل اور شام میں رقہ میں شکست کھانے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور عہدے داروں کا کہنا ہے کہ البغدادي صورت حال کو بھانپ کر ان دونوں شہروں کے د رمیان ہزاروں مربع میل کے صحرا میں کہیں روپوش ہو چکا ہے۔

كردستان کی علاقائی حکومت کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کے سربراہ لاہر طالبانی کہتے ہیں کہ آخرکار وہ پکڑا یا مارا جائے گا۔ وہ ہمیشہ زیر زمین نہیں رہ سکتا۔ لیکن ابھی یہ منزل چند سال کے فاصلے پر ہے۔

مشرق وسطیٰ کی حکومتوں کے لیے داعش أمور کے ایک مشیر ہاشم الہاشم کہتے ہیں کہ اس وقت بغدادی کے لیے سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس کے گرد موجود لوگوں میں سے کوئی 25 لاکھ ڈالروں کے لیے، جو امریکی حکومت نے اس کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے، غداری کرکے اس کی مخبری نہ کر دے۔

ہاشم کا کہنا تھا کہ اب اس کے پاس حکمرانی کے لیے زمین باقی نہیں رہی ۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے چھپتا پھر رہا ہے اور اس کے ساتھیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔

عراقی فورسز نے ملک کے شمالی شہر موصل کا زیادہ تر حصہ داعش سے چھین لیا ہے اور جس شہر پر جون 2014 میں بغدادی نے قبضہ کرنے کے بعد اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا، اب اس کا محض چند کلومیٹر علاقہ ان کے کنٹرول میں باقی رہ گیا ہے، جہاں کی آبادی کو وہ انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

اسی طرح داعش کا دوسرا دارالخلافہ شام کا شہر رقہ تھا جو اب پوری طرح شامی کردوں اور عرب جنگجو گروپوں کے محاصرے میں ہے۔

ابوبکر البغدادی کی عمر 46 سال ہے۔ پیدائش کے وقت اس کا نام ابراہیم السمارائی رکھا گیا تھا۔ وہ عراقی باشندہ ہے اور القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے دو سال کے بعد 2013 میں اس گروپ سے الگ ہو گیا تھا۔

وہ ایک مذہبی گھرانے میں پروان چڑھا۔ بغداد میں اسلامی علوم کا مطالعه کیا اور سن 2003 میں، جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا، وہ سلافي جہادی شورش کا حصہ بن گیا۔

اسے امریکیوں نے گرفتار کیا اور پھر ایک سال کے بعد اسے ایک عام شہری سمجھ کر رہا کر دیا۔

امریکی محکمہ انسداد دہشت گرد نے ابوبکر بغدادی کے سر کی وہی قیمت مقرر کی ہے جو اس نے اسامہ بن لادن اور سابق عراقی صدر صدام حسین کی مقرر کی تھی اور اس کے بعد وہ قیمت القاعدہ میں بن لادن کی جگہ لینے والے ایمن الظواہری کی مقرر کی گئی ہے۔

بغداد میں رہائش پذیر انتہا پسند گروپس سے متعلق ایک ماہر فضل أبو رغیف کہتے ہیں کہ سر کی قیمت مقرر ہونے سے بغدادی کے لیے پریشانی اور مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے اور وہ کسی ایک مقام پر 72 گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹہر رہا۔

طالبانی کہتے ہیں کہ بغدادی گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں ہے۔ اور وہ اپنی نقل وحرکت کے بارے میں بہت محتاط ہے۔ اس کے قابل بھروسا لوگوں کی تعداد بہت گھٹ گئی ہے۔

اس کی ریکارڈ شدہ آخری تقریر نومبر 2016 میں جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اپنے پیروکاروں پر زور دیا تھا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف لڑیں جو ملحد ہیں اور ان کے خون کے دریا بہا دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب چند ہفتے پہلے عراقی فوج نے موصل کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی۔

امریکی اور عراقی عہدے داروں کا خیال ہے کہ اس نے موصل اور رقہ کی لڑائی کی کمانڈ اپنے ساتھیوں کے ہاتھ میں دی ہے اور اسے اپنی جان بچانے کی فکر ہے۔

یہ تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے کہ وہ کہا ں چھپا ہوا ہے۔

ابوبکر بغدادی ٹیلی فون استعمال نہیں کرتا اور اپنے دو ساتھیوں تک پیغام پہنچانے کے لیے اس کے پاس قابل بھروسا کوریئرز کے چند نمبر ہیں۔ جن میں سے ایک اس کا وزیر دفاع ایاز العبیدی اور دوسرا سیکیورئی کا انچارج ایاز الجمالی ہے۔

دو سال پہلے اپنی قوت کے عروج کے دور میں اسلامک اسٹیٹ کی لاکھوں افراد پر حکمرانی تھی اور ان کی سلطنت شمالی شام کے قصبوں اور دیہاتوں سے لے کر دریائے دجلہ اور فرات کی وادی سے عراقی دارالحکومت بغداد کے مضافات تک پھیلی ہوئی تھی۔

انہوں نے بڑی تعداد میں غیر سنی مسلمانوں اور حتی کہ سنی مسلمانوں کو بھی اپنے انداز کے سخت اسلامی قوانین کے تحت ہلاک کیا جو ان کے نظریات سے متفق نہیں تھے۔

لیکن اب اس انتہا پسند گروپ کو مقامی اور بین الاقوامی فورسز کی پیش قدمی سے پسپائی کا سامنا ہے اور زیادہ تر علاقے ان کے قبضے سے نکل چکے ہیں۔