طلبہ کا شعور بڑھانے کے لیے اسٹوڈنٹ یونینز ضروری ہیں، اظہر عباس

  • مبشر علی زیدی

Azhar Abbas

پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طالب علم رہنما رہ چکے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ انھوں نے سیاست کی اس نرسری کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیا الحق کے بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔

اس سلسلے میں جیو نیوز کے ایم ڈی اور سابق طالب علم رہنما اظہر عباس سے خصوصی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

طلبہ تنظیموں کا حصہ رہنے والے بہتر سیاست دان ثابت ہوتے ہیں


سوال: آپ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں کالج گئے۔ تب کون سی طلبہ تنظیمیں فعال تھیں اور آپ نے کس تنظیم میں شمولیت اختیار کی؟

اظہر عباس: میں کالج کے زمانے میں کسی تنظیم کے ساتھ نہیں تھا۔ 80ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو وہاں کئی تنظیمیں تھیں۔ پی ایس ایف تھی، اسلامی جمعیت طلبہ تھی، اے پی ایم ایس او بھی تھی لیکن اس وقت اتنی بڑی نہیں تھی۔ قوم پرست جماعتیں زیادہ تھیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوس ایشن، جئے سندھ، سندھی شاگرد تحریک جو پلیجو صاحب کی تھی۔ ڈی ایس ایف ان دنوں دیہی سندھ، دیہی پنجاب، خیبرپختونخوا جو اس وقت سرحد کہلاتا تھا، بلوچستان سب جگہ تھی، اگرچہ اس میں زیادہ تعداد میں طلبہ نہیں تھے۔ جب میں یونیورسٹی پہنچا تو ڈی ایس ایف کو جوائن کیا۔ مجھے اس میں زیادہ پڑھے لکھے لوگ نظر آتے تھے، زیادہ پروگریسو تھے۔ اس میں دوسری تنظیموں کی طرح دھڑے بندی نہیں تھی۔ اس زمانے میں ترقی پسند سوچ تھی، سوشلسٹ اور بائیں بازو کا زور تھا۔ اس لیے میں نے یونیورسٹی میں ان کے ساتھ کام شروع کر دیا۔

سوال: اس وقت کون سے بڑے طالب علم رہنما تھے اور کیا ان سے ملاقات ہوتی تھی؟

اظہر عباس: ہم سے پہلے کراچی یونیورسٹی میں کافی لوگ ایسے تھے جو آج کسی مقام پر ہیں۔ الطاف حسین تھے، حسین حقانی ہیں، اور لوگ بھی تھے۔ لیکن جب ہم آئے تو یہ لوگ یونیورسٹی سے پاس آؤٹ کر چکے تھے۔ ہمارے زمانے میں حاصل بزنجو تھے۔ وہ مجھ سے سینئر تھے۔ امیر العظیم تھے جو جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک تھے جو بعد میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔ اس دور کے طالب علم رہنماؤں میں افراسیاب خٹک بھی ہیں۔

یونیورسٹی میں کشیدگی ضرور ہوتی تھی اور کچھ لڑائیاں بھی ہوئیں لیکن ملاقاتیں بھی رہتی تھیں۔ ہم نے کراچی یونیورسٹی میں الیکشن بھی لڑا۔ ایک طرف ترقی پسندوں کا اتحاد تھا اور دوسری طرف اسلامی جمعیت طلبہ۔ یہ 1983 کی بات ہے۔ میں نے بھی الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ لیکن اس کے بعد جنرل ضیا الحق نے طلبہ یونیز پر پابندی لگا دی۔

سوال: طلبہ تنظیمیں لڑائی جھگڑے اور ایک دوسرے کے کارکنوں پر تشدد کرتی تھیں۔ کیا آپ کے دور میں ایسے واقعات ہوئے؟

اظہر عباس: مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی میں پہلا دن تھا، طلبہ تنظیموں نے نئے طلبہ کے خیرمقدم کے لیے اسٹال لگائے ہوئے تھے۔ وہاں جمعیت کے کارکنوں اور مخالفین میں لڑائی ہوئی اور گولیاں چلیں۔ اس میں پی ایس ایف کا کارکن قدیر چھوٹا، قدیر عابد جاں بحق ہوگیا تھا۔

میں نے دیکھا کہ ایک اور صاحب کو کچھ لوگ اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ ان کے پیر سے خون بہہ رہا تھا۔ میں نے کہا، ارے انھیں گولی لگی ہے۔ کسی نے کہا، پیر میں لگی ہے۔ کوئی بات نہیں۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ لوگ اس کے عادی ہیں۔ یعنی پیر میں گولی لگی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ جن صاحب کے پیر میں گولی لگی تھی، وہ حاصل بزنجو تھے۔ ان سے بعد میں دوستی ہوگئی بلکہ آج تک برقرار ہے۔

یونیورسٹی میں لڑائیاں بھی ہوئیں، ہاتھاپائی ماراماری ہوئی، فائرنگ بھی ہوئی۔ لیکن 1984 میں طلبہ یونینز پر پابندی لگی تو بہت بڑی تحریک چلی۔ ترقی پسند تنظیمیں، اسلامی جمعیت طلبہ، قوم پرست تنظیمیں سب اس میں شامل تھیں۔ ہم باہر نکلتے تھے، مظاہرے کرتے تھے، پولیس سے بھی تصادم ہوجاتا تھا، وہ سب تنظیمیں مل کر کرتی تھیں۔ ایک رابطہ کمیٹی تھی جس میں جمعیت بھی تھی، ڈی ایس ایف بھی، اور لوگ بھی تھے۔

کراچی میں 1985 میں بشریٰ زیدی کا واقعہ ہوا تو اس کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی۔ ہم نے 86-87ء میں یونیورسٹی چھوڑی، اس کے بعد تشدد بہت زیادہ بڑھ گیا۔ ہمارے دور کبھی کبھار اکا دکا واقعہ ہوجاتا تھا، فائرنگ ہوجاتی تھی۔ لیکن بعد میں زیادہ اور بہت سفاک وارداتیں ہوئیں۔

سوال: کیا آپ کو کبھی طلبہ تنظیم کی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا؟

اظہر عباس: جی ہاں، پولیس نے ایک دو بار پکڑا تھا۔ ڈی ایس ایف کے لیے کام کرتے ہوئے بھی اور ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی۔ لیکن بس اتنا ہوا کہ پولیس نے گرفتار کیا، تھانے لے گئے اور شخصی ضمانت پر چھوڑ دیا۔ میرا ایک ہم نام انھیں دنوں کراچی یونیورسٹی میں ہوتا تھا۔ وہ باسکٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا۔ طلبہ تنظیموں کی تحریک کے زمانے میں پولیس ناکا لگا کر لڑکوں کو پکڑتی تھی۔ ایک بار میرے ہم نام کو پکڑا اور پوچھا کہ کیا نام ہے؟ اس نے بتایا، اظہر عباس۔ انھوں نے اسے بہت مارا کہ تو بہت بڑا لیڈر بنتا ہے۔ وہ کہتا رہا کہ میں باسکٹ بال کا کھلاڑی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ تھانے آکر سب باسکٹ بال کے کھلاڑی بن جاتے ہیں۔ مار مجھے بھی پڑی تھی لیکن اتنی نہیں، جتنی اس بے چارے کو میرا ہم نام ہونے کی وجہ سے پڑی۔

سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ طلبہ تنظیموں میں سرگرم ہونے والے لڑکوں کی تعلیم کا ہرج ہوتا تھا۔

اظہر عباس: اس سوال میں ہمارے دور کو مثال نہیں بنانا چاہیے۔ ہمارا دور مارشل لا کا تھا اور اس میں بہت بڑی سیاسی جدوجہد چل رہی تھی۔ طلبہ یونینز تھیں اور طلبہ تنظیمیں 1984 اور 1986 کی دو تحریکوں میں شامل تھیں۔ جو لوگ ان میں متحرک ہوئے، ان کی تعلیم کا ہرج ہوا۔ ایسے بھی لوگ تھے جو برس ہا برس کالج یا یونیورسٹی ہوسٹل میں رہتے تھے۔ وہ اس جدوجہد کی خاطر معمول سے زیادہ وقت یونیورسٹی میں موجود رہے۔

لیکن یہ کہنا کہ اسٹوڈنٹ یونین میں شامل ہونے سے پڑھائی کا ہرج ہوتا تھا، بالکل غلط ہے۔ پڑھائی اپنی جگہ ہوتی ہے اور یونین ہونی چاہیے، اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ آج جو سیاسی قیادت نظر آتی ہے، ان میں سے بہت سے طلبہ یونینز یا طلبہ تنظیموں کا حصہ رہے ہیں۔ وہی آگے جا کر سمجھ دار سیاست دان ثابت ہوتے ہیں، اس لیے طلبہ یونینز کو ہونا چاہیے۔

سوال: طلبہ تنظیموں پر پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ کیونکہ آج کی نسل ایسی سرگرمیوں کے بجائے سوشل میڈیا پر جگتیں زیادہ لگاتی ہے۔

اظہر عباس: ہمیں ہمیشہ امید رکھنی چاہیے کہ نئی نسل اور آئندہ نسل زیادہ بہتر ہوگی۔ اور کیوں نہیں ہوگی؟ ہر وقت ایک طرح کا نہیں ہوتا۔ ہم اپنے دور میں نکل کر پولیس سے لڑتے تھے۔ پولیس مارشل لا کی علامت بن گئی تھی۔ اب ملک میں بظاہر جمہوریت ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ ویسی جدوجہد شروع ہوجائے گی۔ لیکن طلبہ کے حقوق، تعلیمی اداروں میں ان کی ضروریات اور ملک میں کس طرح کا نظام ہونا چاہیے، اس شعور کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ یونینز ہوں، تقریری مقابلے ہوں، بحث و مباحثے ہوں۔

آج بہت سی باتیں لوگ باہر نکل کر نہیں کرتے۔ کالجوں یونیورسٹیوں میں تربیت ملتی ہے کہ کیسے ان پر گفتگو کریں۔ جب آپ ان آوازوں کو روکتے ہیں تو پھر معاشرے میں بھی مکالمہ اور گفتگو رک جاتی ہے۔ اسکولوں کالجوں میں تقریروں کا، بحث مباحثے کا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا کلچر بنے گا تو پھر طلبہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد معاشرے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔

سوال: طلبہ تنظیموں میں سرگرم بہت سے لوگ قومی سیاست میں آئے۔ آپ کیوں میڈیا کی طرف چلے گئے؟

اظہر عباس: یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد پہلی ملازمت ایک سیاسی جریدے ’روشن خیال‘ میں ملی۔ وہ ایک طرح سے ہماری جدوجہد کا حصہ تھا۔ میں کچھ عرصہ اس میں کام کرتا رہا۔ 1988 میں جمہوریت آئی تو میں نے پاکستان کے بڑے سیاست دانوں کے انٹرویوز کیے۔ یہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی یا نہیں، پھر تو مارشل لا نہیں آجائے گا اور فوج کا کردار کیا رہے گا؟ ان سوالات پر انٹرویوز کرنے کے بعد میں نے انھیں ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ عملی سیاست میں آنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو صحافت میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔یہ بھی ہے کہ جمہوریت آنے کے بعد وہ رومانس ختم ہوگیا تھا جو مارشل لا دور کی جدوجہد میں تھا۔ پھر غم روزگار لاحق ہوگیا۔ تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے۔