بابر اعوان وزارت سے مستعفی، بھٹو کیس کی پیروی کرینگے

گڑھی خدا بخش میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا مزار

پاکستان کے وفاقی وزیرِقانون بابر اعوان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے پیش ہونگے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق بابر اعوان نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ قائم مقام صدر فاروق ایچ نائیک کو بدھ کے روز پیش کیا جسے منظور کرلیا گیا ہے۔ اعوان سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے ریفرنس کی کل بروز جمعرات سے ہونے والی سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے بطورِ وکیل پیش ہونگے۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے بدھ کی شام جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے وفاقی وزیر کی حیثیت سے دیے گئے استعفیٰ کی منظوری کے بعد کونسل نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل کی حیثیت سے ان کا لائسنس بحال کردیا ہے جس کے بعد وہ جمعرات کے روز سے اعلیٰ عدالت کے سامنے بطورِ وکیل پیش ہوسکتے ہیں۔

اس سے قبل بدھ کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریفرنس کی ابتدائی سماعت کی۔ سماعت کے موقع پر وفاقی وزیرِ قانون نے عدالت کے روبرو پیش ہوکر بینچ کو بتایا کہ حکومت نے انہیں اپنا وکیل مقرر کیا ہے اوروہ اپنا عہدہ چھوڑ کر اس اہم مقدمے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے حکمران جماعت کے بانی چیئرمین ذولفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے عدالتی فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کیلیے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا تھا جس میں اعلیٰ عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ سابق وزیرِاعظم کو عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کا ازسرِ نو جائزہ لے۔

1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس وقت کی فوجی حکومت نے انہیں ایک مخالف سیاستدان محمد رضا قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔بعد ازاں مذکورہ مقدمے کی سماعت کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے مسٹر بھٹو کو جرم ثابت ہونے پر 18 مارچ 1978ء کو سزائے موت سنادی تھی۔

ذولفقار بھٹو کے اہلِ خانہ کی جانب سے انہیں سنائی گئی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جس کی سماعت کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے 6 فروری 1979ء کو دیے گئے فیصلے میں 4-3 کی اکثریت سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

اعلیٰ عدالت کی جانب سے فیصلہ کے خلاف دائر کردہ نظرِ ثانی کی اپیل بھی 24 اپریل 1979ء کو مسترد کردی گئی تھی جس کے بعد سابق وزیرِاعظم کو 4 اپریل 1979ء کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

بدھ کے روز ہونے والی ابتدائی سماعت کے دوران ڈاکٹر بابر اعوان نے بینچ کے سامنے اپنے استعفیٰ کی نقل بھی پیش کی۔ بعد ازاں بینچ نے ابتدائی کاروائی کے بعد ریفرنس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ وہ کیس کے سلسلے میں اعلیٰ عدالت سے مکمل تعاون کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری نے ریفرنس کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کورٹ روم میں موجود رہنے کی ہدایت کی ہے۔

حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے قیادت اپنے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کو ’عدالتی قتل‘ قرار دیتی آئی ہے۔ ملکی تاریخ میں چوتھی بار برسرِ اقتدار آنے والی پی پی پی کا موقف ہے کہ اُنھوں نے سپریم کورٹ سے اس لیے رجوع کیا ہے تاکہ 'تاریخ کا ریکارڈ' درست کیا جائے۔

تاہم حکومت کے مخالفین مذکورہ صدارتی ریفرنس کو اعلیٰ عدالت پہ دبائو بڑھانے اور قوم کی توجہ ملک کو درپیش اہم مسائل سے ہٹانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔