گزشتہ دو سالوں میں شارک کے چھ مہلک حملوں کے بعد جنوری میں مغربی آسٹریلوی حکومت کو اس حکمت عملی پر عمل درآمد کی اجازت ملی
مغربی آسٹریلیا میں جان لیوا حملوں کے بعد آبی جانوروں کو مارنے کی متنازع حکمت عملی کے تحت مقامی انتظامیہ نے تقریباً 170 سے زائد شارک مچھلیوں کو پکڑ لیا ہے۔
حکام کے مطابق 50 بڑی مچھلیوں کو مار بھی دیا گیا ہے تاہم ان میں سے کوئی بھی سفید شارک نا تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جان لیوا حملے کرتی ہے۔
مقامی حکومت کا کہنا تھا کہ اس عمل سے ساحل پر جانے والوں کا اعتماد بحال ہورہا ہے اور وہ اس کارروائی کو مزید تین سال جاری رکھنے کے لیے اجازت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں شارک کے چھ مہلک حملوں کے بعد جنوری میں مغربی آسٹریلوی حکومت کو اس حکمت عملی پر عمل درآمد کی اجازت ملی جس کے تحت سمندر کی سطح کے قریب موجود 10 فٹ سے زائد لمبی شارک کو مارا جا سکتا ہے۔
مغربی آسٹریلیا کے ماہی پروری کے وزیر کن باسٹن کا کہنا تھا کہ ’’میرے خیال میں حکمت عملی بہت اچھی گئی۔ ذہن نشین کرلیں کہ یہ بڑی واضح حکمت عملی ہے یہ دراصل ان افراد کے تحفظ کے لیے ہے جو کہ ان مشہور علاقوں میں تیرنا چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ کہ اس بات کا علم نہیں کہ پکڑی جانے والی شارک نے کسی فرد کو نقصان پہنچایا مگر حکومت انسانی جانوں کو ترجیح دیتی ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کی تخفیف حل نہیں بلکہ آبی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
آسٹریلوی ریڈیو اے بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہی پروری کی ایک تنظیم کے ترجمان ڈیوو کیلی کا کہنا تھا کہ ’’لوگ چاہتے ہیں کہ باقاعدہ سائنسی تحقیق کے ذریعے بتایا جائے کہ حکومت کیوں سمجھتی ہے کہ اس پالیسی سے ہمارے ساحل محفوظ ہوجائیں گے۔‘‘
حکام کے مطابق 50 بڑی مچھلیوں کو مار بھی دیا گیا ہے تاہم ان میں سے کوئی بھی سفید شارک نا تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جان لیوا حملے کرتی ہے۔
مقامی حکومت کا کہنا تھا کہ اس عمل سے ساحل پر جانے والوں کا اعتماد بحال ہورہا ہے اور وہ اس کارروائی کو مزید تین سال جاری رکھنے کے لیے اجازت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں شارک کے چھ مہلک حملوں کے بعد جنوری میں مغربی آسٹریلوی حکومت کو اس حکمت عملی پر عمل درآمد کی اجازت ملی جس کے تحت سمندر کی سطح کے قریب موجود 10 فٹ سے زائد لمبی شارک کو مارا جا سکتا ہے۔
مغربی آسٹریلیا کے ماہی پروری کے وزیر کن باسٹن کا کہنا تھا کہ ’’میرے خیال میں حکمت عملی بہت اچھی گئی۔ ذہن نشین کرلیں کہ یہ بڑی واضح حکمت عملی ہے یہ دراصل ان افراد کے تحفظ کے لیے ہے جو کہ ان مشہور علاقوں میں تیرنا چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ کہ اس بات کا علم نہیں کہ پکڑی جانے والی شارک نے کسی فرد کو نقصان پہنچایا مگر حکومت انسانی جانوں کو ترجیح دیتی ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کی تخفیف حل نہیں بلکہ آبی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
آسٹریلوی ریڈیو اے بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہی پروری کی ایک تنظیم کے ترجمان ڈیوو کیلی کا کہنا تھا کہ ’’لوگ چاہتے ہیں کہ باقاعدہ سائنسی تحقیق کے ذریعے بتایا جائے کہ حکومت کیوں سمجھتی ہے کہ اس پالیسی سے ہمارے ساحل محفوظ ہوجائیں گے۔‘‘