آسٹریلوی بحریہ کی حجاب پہننے والی خاتون کپتان

مصری نژاد آسٹریلوی خاتون مونا شینڈی رائل بحریہ پر ہتھیاروں کی الیکٹریکل انجنیئر بھی ہیں،انھیں حال ہی میں آسٹریلوی بحریہ کی اسلامی مشیر کی حیثیت سے بھی تعینات کیا گیا ہے ۔

آسٹریلیا کی شاہی بحریہ میں ایک مسلمان خاتون کپتان کے عہدے پر فائز ہیں، جنھیں آسٹریلوی رائل بحریہ کی حجاب پہنے والی پہلی مسلمان کپتان بتایا گیا ہے ۔

مصری نژاد آسٹریلوی خاتون مونا شینڈی رائل بحریہ پر ہتھیاروں کی الیکٹریکل انجنیئر بھی ہیں، انھیں حال ہی میں آسٹریلوی بحریہ کی اسلامی مشیر کی حیثیت سے بھی تعینات کیا گیا ہے ۔

مونا شینڈی شاہی بحریہ کےاسلامی یونیفارم اور سر پرحجاب پہن کر بحریہ کے جنگی جہازوں پر اپنے فرائض انجام دیتی ہیں جبکہ ایک ماں کی حیثیت سے وہ گھر پر تین بچوں کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری بھی پوری کرتی ہیں۔

خواتین کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھی جانے والی مونا شینڈی کو ان کی ثقافتی خدمات کے اعتراف میں آسٹریلیا کی معروف براڈ بینڈ سروس ٹیلسٹرا کی جانب سے گذشتہ ہفتے نیو ساوتھ ویلز بزنس 'وومن آف دا ائیر 2015' کے خطاب سے نوازا گیا ہے ۔

مونا شینڈی مصر میں پیدا ہوئیں ان کے والدین نے مصر سے سڈنی ہجرت کر کے آئے تھے مونا کی عمر چودہ سال تھی جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا تاہم سخت مشکلات کے باوجود مونا اپنے مقاصد کےحصول میں کامیاب رہیں۔

​ہتھیاروں کی الیکٹریکل انجنیئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مونا پہلی بار 1989 میں ایچ ایم اے ایس کینبرا نامی جنگی جہاز پر سوار ہوئیں تھیں جہاں انھوں نے بحرالکاہل میں میزائل کو ٹیسٹ کرنا تھا۔

تاہم 26 سال کی عمر میں مونا نے رائل بحریہ کے ساتھ اپنے کرئیر کی شروعات کی اور کپتان کی حیثیت سے اپنے پہلے دورے کے بعد ان کی شادی ہو گئی ۔

اخبار ٹیلی گراف سے ایک انٹرویو میں مونا شینڈی نے کہا کہ اسلامی ثقافتی امور پر اسٹریٹیجک مشیر کی حیثیت سے ان کا کام دفاعی ارکان کے درمیان اسلامی روایات اور ثقافتی حساسیت کے بارے می تفہیم پیدا کرنا ہے تاکہ مسلمان اتحادی ممالک کے ساتھ تعاون کو بہتر بنایا جاسکے ۔

انھوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو دفاعی قوت میں شامل ہونے کےلیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں اس وقت دفاعی قوت میں مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ سو ہے جن میں سے آسٹریلوی بحریہ کی دفاعی فورس کے اہلکاروں میں سے صرف 27 افراد کی شناخت مسلمان ہے ۔

بحریہ میں صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر خواتین انجنیئرز کو کسی بھی کام کےماحول میں اپنی قابلیت ظاہر کرنےکے لیے ابتدائی طور پر زیادہ مشکل کام کرنا پڑتا ہےخاص طور پر انھیں یہ دکھانا پڑتا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں ٹیم کی ایک قابل قدر رکن ہیں اور ٹیم کا ایک اہم حصہ ہیں ۔

مونا شینڈی نے بتایا کہ رمضان المبارک میں ان کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں خاص طور پر جب وہ روزے سے ہوتی ہیں تو اپنے ساتھیوں سے امید کرتی ہیں کہ ان کے حصے کا کھانا بچا لیا جائے تاہم اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کے پاس کھلے سمندر میں افطاری کے نام پر خشک ٹونا مچھلی کےچند ڈبے ہوتے ہیں ۔

مونا کہتی ہیں کہ بحری جہازوں پر دو سے چھ ماہ کےدورے کےساتھ دوسالہ دورانیے کی سروس ہوتی ہے اور چھ ماہ کا عرصہ کسی بھی زبان میں ایک ماں کے لیے اپنے بچوں سے دوری رکھنے کے لیے ایک بڑی قربانی ہے ۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اپنےخاندان کے تعاون کے بغیران کا بحریہ کی ملازمت کو جاری رکھنا ناممکن تھا ۔