آٹھ مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے متعدد شہروں میں عورت مارچ کئے گئے جن میں بہت سے پلے کارڈز مسلسل زیر بحث ہیں۔ ان بہت سے پلے کارڈز میں سے ایک صحافی صباحت زکریا اور ایکٹوسٹ نگہت داد نے بھی اٹھا رکھا تھا جس میں لکھا تھا کہ، ’’طلاق یافتہ اور خوش‘‘۔
سوشل میڈیا پر اس پلے کارڈ پر بحث ہو رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے طلاق کو گلوری فائی کرنے سے مترادف قرار دیا ہے۔
ٹویٹر پر ثریا عزیز نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ جیسا پلے کارڈ ان خواتین نے پکڑ رکھا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ میں پرانے خیالات کی ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلاق ہر عورت کا حق ہونا چاہے مگر یہ پہلا نہیں آخری حل ہونا چاہئے۔
ثریا کی اس ٹویٹ کے جواب میں بہت سی پاکستانی خواتین ٹویٹر پر اپنے تجربات شئیر کر رہی ہیں۔
نگہت داد نے لکھا کہ جب میرے شوہر نے جب مجھے چھوڑا تو میرا بچہ چھ ماہ کا تھا۔ میں نے وکالت کی۔ پریکٹس طلاق کے بعد شروع کی۔ آج میں نے کئی بین الاقوامی ایوارڈ لے کر پاکستان کے لئے فخر کا کام کیا ہے۔
دانیکا کمال نے لکھا کہ کیا ثریا یہ کہنا چاہتی ہیں کہ طلاق کے بعد عورتوں کو خوش رہنے کا حق نہیں ہے؟
بھان متی کے نام سے ایک صارف نے لکھا کہ جب مجھے طلاق ہوئی تو میرا وزن محض 38 کلو رہ گیا تھا۔ میری ماں مجھے سارا دن گرم دودھ پلاتی، دوائیوں کے بعد بھی مجھے نیند نہ آتی اور آپ کہہ رہی ہیں کہ طلاق کوئی نیا فیشن ہے؟
صحافی صباحت زکریا نے لکھا کہ اس پلے کارڈ کا مقصد آپ کے ذہن میں بنے طلاق سے متعلق گھسے پٹے خیالات کو دھچکا لگانا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ پاکستانی ڈراموں میں جیسے طلاق کے بعد عورت کو بے چاری دکھایا جاتا ہے یہ اس کا جواب تھا۔
عصام احمد نے لکھا کہ اکثر لوگ ہنسی خوشی طلاق نہیں لیتے کیوں کہ کسی کے لئے شادی کوئی مذاق نہیں ہوتا۔ مگر یہ کہنے میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ طلاق کے بعد خاموشی سے رہنے میں عزت ہے۔ اگر کسی پر ظلم ہوا ہے تو اسے بولنا چاہئے۔
عصمہ علی زین نے لکھا کہ کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ جب خاندان کے مرد نکاح نامے میں عورت کے حق طلاق پر خط تنسیخ پھیر دیتے ہیں تو کتنی ہی خواتین اس بنیادی حق سے محروم رہ جاتی ہیں؟
عزیمہ الیاس نے لکھا کہ جب ہماری ایک ہم جماعت کو طویل عدالتی جنگ کے بعد خلع ملا تو ہماری ٹیچر نے ہمیں کہا کہ اس سے افسوس نہ کرنا بلکہ اسے ایک مصیبت سے نجات پر مبارک باد دینا۔
لائبہ زینب نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ شادی شدہ زندگی میں تشدد برداشت کرتے رہو مگر طلاق کا نام نہ لو، کیونکہ طلاق کا نام بے حیا عورتیں لیتی ہیں، اچھی عورتیں تو مار کھاتی ہیں، چب رہتی ہیں اور خاموشی سے مر جاتی ہیں۔
وائس آف امرکہ سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی معروف کارکن تنویر جہاں نے کہا کہ یہ جو ہماری پرانی روایت تھی کہ ایک عورت بیاہ کر جا رہی ہے اور اس کا اب اس گھر سے جنازہ ہی نکلے گا یہ روایت یا ٹرینڈ بہت بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجوہات تعلیم اور روزگار میں اضافہ اور عورتوں میں خود اعتمادی اور شعور کا بڑھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ طلاق زندگی کا اختتام نہیں ہے۔ بے جوڑ یا تکلیف دہ شادی میں ساری عمر کڑھتے سڑتے رہنے سے بہتر ہے کہ راستے الگ کر لیں، یہ قانونی اور مذہبی طور پر بھی درست ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معاشرے میں اب ریفلیکٹ بھی ہو رہا ہے۔ پہلے جو یہ ٹرینڈ تھا کہ عورت جو طلاق لیتی تھی اسے یا تو گھر والے قبول نہیں کرتے تھے، یا اگر کر لیتے تھے تو بے چاری کا سٹیٹس دیا جاتا تھا اب یہ شعور پیدا ہو رہا ہے کہ یہ درست عمل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب طلاق کے گرد سٹیگما کم ہو رہا ہے۔ بے چاری کہنے میں بھی کمی آئی ہے۔ بہت سی عورتیں طلاق کے بعد بھرپور زندگی گزارتی ہیں۔ اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ نہ شادی زندگی کا اختتام ہے اور نہ ہی طلاق۔
عورت مارچ کے اس متعلقہ پوسٹر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اظہار خیال کیا کہ ’’یہ جو پوسٹر تھا، یہ ایک پیغام تھا کہ جو ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں طلاق یافتہ عورت کو بے چاری کی زندگی گزارنی چاہئے، یہ غلط ہے۔ ایک ناکام رشتے کو گھسیٹتے رہنا قابل تعریف بات نہیں ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاکستان میں جو مسلم لا آرڈیننس ہے اس میں شادی دو بالغ افراد میں معاہدہ ہے۔ جب ایک معاہدے میں دونوں پارٹیوں میں سے ایک یا دونوں ہی اس سے خوش نہیں تو اسے گھسیٹنے کا کیا فائدہ؟