پاکستان میں خواتین کے عالمی دن پر مختلف تقریبات اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ لاہور، اسلام آباد اور کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں عورت مارچ کے علاوہ مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے 'حیا مارچ' اور 'تکریم نسواں مارچ' کا اہتمام کیا گیا۔
خواتین کے عالمی دن پر ہمارے نمائندوں نے کیا دیکھا جانتے ہیں ان کے اپنے الفاظ میں۔
اسلام آباد کا پریس کلب یا ہائیڈ پارک؟
عاصم علی رانا، اسلام آباد
اسلام آباد کا نیشنل پریس کلب خواتین کے عالمی دن پر تمام تر سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ یہاں چار مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
ان میں سب سے پہلے جماعت اسلامی کا مارچ دن بارہ بجے کے قریب شروع ہوا۔ اس مارچ کو 'تکریم نسواں مارچ' کا نام دیا گیا۔ اس مارچ میں سیکڑوں خواتین شریک ہوئیں۔ یہ مارچ نیشنل پریس کلب کے سامنے سے یوٹرن لے کر چائنا چوک پہنچا جہاں امیر جماعت اسلامی نے خطاب کیا اور بعدازاں شرکا پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں کسی ایسے شخص کو انتخابی ٹکٹ نہیں دیں گے جس نے اپنی بہن کو وراثت میں حصہ نہ دیا ہو۔ انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جو مرد اپنی بہن کو وراثت میں حق نہ دے اسے الیکشن نہ لڑنے دیا جائے۔
دوسرا مارچ تحریک منہاج القران کی طرف سے تھا، جس کا اہتمام اُن کی خواتین ونگ نے کیا تھا۔ البتہ ان کے ساتھ مرد حضرات کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور تقریر کرنے والے ایک دو افراد کے علاوہ زیادہ تر خواتین ہی موجود تھیں۔ ان خواتین نے بھی نعرے بازی تو بہت کی لیکن اس وقت عورت مارچ والے موجود نہیں تھے۔
اس کے بعد تیسرا اجتماع اسلام آباد کی تمام مذہبی جماعتوں اور جامعہ حفصہ کی طالبات کا تھا۔ جمعیت اہلسنت کے پلیٹ فارم کے تحت اس مارچ میں زیادہ زور اس بات پر دیا جارہا تھا کہ جتنے بھی مرد حضرات ہیں وہ خواتین کے دائرے سے ہٹ کر رہیں۔
اس بات پر فوٹو گرافرز اور میڈیا کارکنان کے ساتھ اُن کی تلخ کلامی بھی ہوتی رہی۔ مذہبی جماعتوں کی خواتین اور مرد حضرات کو نیشنل پریس کلب کے سامنے موجود دو سڑکوں میں سے ایک سڑک دی گئی تھی جبکہ پریس کلب سے ملحقہ سڑک عورت مارچ کے منتظمین کو دی گئی تھی۔
دن کے وقت تقریباً دو گھنٹوں تک محض 20 سے 25 فٹ کے فاصلے پر دونوں کے ٹرک موجود تھے اور دونوں ٹرکوں پر نصب بھاری بھرکم اسپیکرز کے ذریعے اپنی اپنی تقاریر کی جارہی تھیں۔ ہر کسی نے اپنے بینرز اٹھا رکھے اور ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں یوم خواتین منا رہا تھا۔ اس دوران دونوں جانب سے اپنے اپنے انداز میں نعرہ بازی بھی کی گئی۔ عورت مارچ میں 'میرا جسم میری مرضی' اور دوسری جانب سے عورت مارچ کے خلاف نعرے لگتے رہے۔
ماحول خاصا تلخ اور گرم بھی نظر آرہا تھا اور یہی سوال جب میں نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات سے کیا تو وہ بولے کہ اجازت نامہ تو صرف ایک ہی تنظیم کو دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ باقی مارچ غیر قانونی ہیں، لہذٰا اُن کے خلاف کارروائی ہو گی۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے علما حضرات کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں جنہوں نے مکمل طور پر پرامن رہنے کا کہا ہے۔ لیکن شاید علما حضرات کا یہ دعویٰ حمزہ شفقات سے بات چیت کے چند لمحوں بعد ہی اس وقت غائب ہوگیا جب اچانک پتھراؤ شروع ہو گیا۔
عورت مارچ میں شریک بیشتر خواتین اور مرد اس اچانک صورتِ حال سے گھبرا کر سپر مارکیٹ کی طرف بھاگے جہاں ان کا ٹرک ان سے بھی آگے جا رہا تھا۔ صحافیانہ مجبوری کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی فوٹیج اور اصل صورتِ حال جاننے کے لیے اس جانب جانا پڑا جہاں زیادہ پتھراؤ ہو رہا تھا۔
یہ بالکل وہی مقام تھا جہاں کئی گھنٹوں تک فریقین کے ٹرک موجود تھے، لیکن اب دونوں طرف کے ٹرک غائب اور سڑکوں پر پھینکے گئے جوتے اور پتھر موجود تھے۔ اس دوران پتھراؤ لگاتار جاری تھا اور ایک پتھرسیدھا اڑتا ہوا آیا اور سینے پر لگا لیکن معمولی خراش کے علاوہ یہ پتھر نقصان نہ پہنچا سکا۔ البتہ ایک ہاتھ میں موبائل فون اور دوسرا ہاتھ سر پر رکھ لیا کہ سر پر پتھر جتنا مرضی ہلکا لگے کچھ نہ کچھ اثر رکھتا ہے۔
اس دوران پولیس اہلکار حالات پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے۔ کچھ جذباتی نوجوانوں نے جوابی پتھراؤ کیا، لیکن پولیس نے اُنہیں روک دیا۔ یہ معاملہ لگ بھگ 10 منٹ تک جاری رہا۔ پولیس والے عورت مارچ کے شرکا کو یہاں سے دو سو سے تین سو میٹر دُور لیجانے میں کامیاب ہو گئے۔
'جو پلے کارڈ اچھا لگا وہ لے آئے'
ضیا الرحمن، لاہور
خواتین کے عالمی دن پر لاہور میں نکالی جانے والی ریلی کی رپورٹنگ کرنے کے لیے گھر سے نکلا تو پنجاب اسمبلی کے قریب ہی پولیس نے سڑک بند کر رکھی تھی۔ پولیس کے روکنے پر اپنا تعارف کرایا اور میڈیا کارڈ دیکھنے کے بعد پولیس نے شملہ پہاڑی کی طرف جانے دیا۔
ابھی ایجرٹن روڈ پر پہنچا ہی تھا کہ مختلف کنٹینروں سے شملہ پہاڑی کو جانے والی تمام سڑکوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ کچھ ٹرک ڈرائیور چٹائی بچھا کر سردیوں کی دھوپ سینک رہے تھے۔ میں نے پوچھا بھائیو یہاں کیوں بیٹھے ہو تو سلیم احمد نامی ٹرک ڈرائیور نے بتایا کہ وہ پھل لے کر سرگودھا جا رہے تھے لیکن رات کو پولیس اُنہیں زبردستی یہاں لے آئی اور کھڑا کر دیا نہ کوئی کرایہ دیا نہ کچھ کھانے کو۔
عورت مارچ کی کوریج کے لیے شملہ پہاڑی کی طرف بڑھا تو امریکی قونصلیٹ کو جانے والے تمام راستوں کو کنٹینر لگا کر ضلع انتظامیہ لاہور نے بند کر رکھا تھا۔
عورت مارچ کے لیے ابھی خواتین اکٹھی ہو رہی تھیں کہ پہلی نظر عورت مارچ میں شرکت کے لیے آئی دو خواتین پر پڑی۔ جنہوں نے 'مردانہ کمزوری، اینڈ آف اسٹوری' (کہانی ختم) کا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا۔ میں نے خواتین سے پوچھا کہ عورت مارچ کا مردانہ کمزوری سے کیا تعلق ہے۔ پہلے تو اُنہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر ایک خاتون بولی کہ جو اُنہیں اچھا لگا وہ پلے کارڈ لکھ کر لے آئی ہیں۔
اتنے میں دیگر خواتین بھی مارچ کے لیے جمع ہونا شروع ہو گئیں۔ میں نے دیکھا کہ پنجاب پولیس کے مرد افسر، خواتین افسر اور خواتین اہلکار زیادہ تعداد میں عورت مارچ کے شرکا کو سیکورٹی دینے کے لیے مامور ہیں۔
مشاہدے میں آیا کہ خواتین مارچ کی منتظمین بار بار میڈیا کے نمائندوں سے الجھنے کی کوشش کر رہی تھیں اور انہیں رپورٹنگ کرنے کا درس دے رہی تھیں۔ کچھ کیمرہ مین صحافیوں نے سمجھانے کی کوشش کی تو سننے کو ملے کہ آپ کو یہاں بلایا کس نے ہے؟ یہ اُن کا مارچ ہے کوریج بھی اُن کی مرضی سے ہو گی۔
مارچ میں چند خواتین کئی فٹ لمبا سرخ رنگ کا بینر تھامے کھڑی تھیں، جس پر کچھ نعرے درج تھے۔ میں نے پوچھا کہ بینر پر کیا تحریر کیا ہے تو ایک خاتون نے جواب دیا کہ اِس پر سب لڑکیوں نے اپنی آب بیتی ایک ایک جملے میں لکھی ہے۔
اتنی دیر میں شملہ پہاڑی سے مارچ شروع ہو گیا جو ایجرٹن روڈ سے ہوتا ہوا لاہور اسٹاک ایکسچینج کے پاس پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔
مارچ کے دوران خواتین اپنے حقوق کے لیے نعرے لگاتی رہیں جن میں "میرا جسم میری مرضی،" "ساڈا حق ایتھے رکھ،" اور "عورت کیا مانگے آزادی" زیادہ سننے کو ملے۔
نعرہ لگانے والی چند خواتین سے پوچھا کہ آزادی کس سے چاہیے تو اِس کا کوئی جواب نہیں دے سکیں، کون سے حق کی بات کر رہی ہیں تو اِس کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر بتایا کہ خواتین کو اپنے جسموں پر دوسروں کی مرضی نہیں چاہیے وہ خود اچھے برے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ البتہ اُن کا کہنا تھا کہ حقوق ملتے نہیں چھیننے پڑتے ہیں۔
عورت مارچ میں شریک خواتین نے مہنگائی اور معاشرتی جبر نامنظور، شادیوں کے نام پر کاروبار بند کرو، اپنا کھانا خود گرم کرو، باعزت روزگار عورت کا حق ہے جیسے نعروں پر مبنی بینرز اُٹھا رکھے تھے۔
اسٹاک ایکسچینج کے سامنے پہنچ کر عورت مارچ کے شرکا نے کچھ ٹیبلوز اور عورت مارچ 2020 کا منشور پیش کیا۔
منشور میں بتایا گیا تھا کہ شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر ہونی چاہیے۔ گھریلو جنسی تشدد کو پاکستان بھر میں غیر قانونی قرار دیا جائے۔ بچوں کے جنسی استحصال کو روکا جائے، جیسے مطالبات شامل تھے۔
مارچ کی منتظمین میں سے ایک اور ڈیجیٹل رائٹ فاونڈیشن کی سربراہ نگہت داد کہتی ہیں کہ مارچ میں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ خواتین شامل ہیں۔ لہذٰا اُن کے خلاف پراپیگینڈہ کیا جا رہا ہے کہ مارچ ناکام ہو گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نگہت داد نے مارچ کے دوران لگائے گئے غیر اخلاقی نعروں پر موقف دیتے ہوئے کہا کہ مردانہ کمزوری جیسے نعرے ہر دوسری دیوار پر دیکھے جاتے ہیں۔ اگر عورت نے وہ نعرہ لگا لیا تو کون سی قیامت آ گئی۔
عورت مارچ میں جہاں خواتین شریک تھیں وہی کچھ مرد صاحبان بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ سینئر صحافی امتیاز عالم کہتے ہیں کہ مارچ میں شریک خواتین شعور اُجاگر کر رہی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے امتیاز عالم نے کہا کہ جو بات زیر بحث نہیں لا سکتے تھے، اس اب زیرِ بحث لایا جا رہا ہے۔
ہم افسردہ ہیں، ہمارے پاس تم ہو
نوید نسیم، لاہور
گزشتہ سال عورت مارچ کور کرنے کے بعد اس سال عورت مارچ کور کرنے پہنچا تو فرق یہ محسوس ہوا کہ پچھلے سال مقررہ وقت پر شروع ہونے والا مارچ، اس سال تاخیر سے شروع ہوا۔ یہاں تک کہ عورت مارچ کی منتظمین بھی قدرے دیر سے لاہور پریس کلب پہنچیں۔
لاہور پریس کلب کو جانے والے تمام راستے بند تھے اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے مارچ میں آنے والے تمام شرکا کو ڈیوس روڈ سے پریس کلب پہنچنے کا پیغام دیا جا رہا تھا۔ جس کے ارد گرد ویسے ہی سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ جیسے پی ایس ایل میچ کے لیے قذافی اسٹیڈیم کے گرد کیے جاتے ہیں۔
پریس کلب سے براستہ ایجرٹن روڈ ایوان اقبال پہنچنے تک تمام راستے ویسے پوسٹرز اور پلے کارڈز کو نظریں ڈھونڈتی رہیں۔جن کی وجہ سے گزشتہ سال ہونے والے عورت مارچ پر شدید تنقید کی گئی۔ تاہم تین یا چار خواتین کے ہاتھوں میں “میرا جسم، میری مرضی” کے پوسٹرز کے علاوہ کوئی بھی ایسا قابل اعتراض (کچھ لوگوں کے لیے) پوسٹر نظر نہیں آیا۔ جس کو سوشل میڈیا پر شیئر کرکے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی بدنام کیا جا سکے۔
اس سال عورت مارچ میں وہ خواتین بھی دکھائی دیں جو گھریلو خواتین تھیں اور وہ اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ مارچ میں شرکت کے لیے آئیں تھی۔
جب ان سے اس مارچ میں شرکت کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی چاہتی ہیں کہ ہمیں بھی مردوں جیسے حقوق ملیں اور اس پدر شاہی نظام میں عورتوں کو جو مردوں کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ اس سے چھٹکارا ملے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی شادی پر ان سے ان کی مرضی تو نہیں پوچھی گئی۔ لیکن وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی کی شادی پر اس کی رضا مندی ضرور حاصل کی جائے اور اسی لیے وہ اس مارچ میں شرکت کر رہی ہیں۔
اس عورت مارچ میں ایک جو چیز قابل غور تھی وہ یہ تھی کہ اس میں بھی لگ بھگ وہی لاہوری شریک تھے۔ جو حالیہ عرصے میں لاہور ادبی میلے، طلبہ یکجہتی مارچ میں نظر آتے تھے۔
حیران کن طور پر اس مارچ میں نیوز چینلز کے اسٹاف سے زیادہ تعداد یو ٹیوبرز کی نظر آئی جو ہاتھوں میں موبائل کیمرے تھامے کوریج کررہے تھے۔ جن میں متعدد خواتین بھی شامل تھیں۔
سیکیورٹی حصار میں ہونے والا مارچ اس لیے بھی منفرد تھا کہ اس کے آگے خواتین پولیس اہلکاروں نے ہاتھوں سے ہاتھ ملا کر زنجیر بنا رکھی تھی۔ اور جب ان میں سے ایک سے پوچھا کہ ان کے کیا مطالبات ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تو بس دو وقت کی روٹی عزت سے مل جائے تو ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔
مارچ کے دوران ایک معمر خاتون کا کہنا تھا کہ اس بار ویسے پوسٹرز تو نہیں لائے گئے جیسے پچھلے سال سامنے آئے تھے۔ لیکن اس بار اس سے بھی زیادہ قابل اعتراض پوسٹرز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جن پر مصنف خلیل الرحمان قمر کی تصاویر لگائی گئی ہیں۔ ایسے میں انہوں نے ایک پوسٹر کی طرف میری توجہ دلوائی، جس پر درج تھا "ہم افسردہ ہیں، ہمارے پاس تم ہو۔"
ملتان کے مارچ میں مختاراں مائی کی شرکت
جمشید رضوانی، ملتان
ملتان میں پہلی بار خواتین مارچ کے اعلان کے بعد کچھ شہریوں اور ان سے شاید زیادہ میڈیا کے نمائندوں کو تجسس تھا کہ ملتان میں شرکا کون ہوں گے. اور پلے کارڈز پر نعرے کیا ہوں گے اور کیا ایسا ممکن ہو گا کہ انہیں کوئی 'بڑی خبر' مل سکے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
ملتان میں چوک نواں شہر سے ابدالی مسجد موڑ تک رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ ٹریفک مکمل طور پر بند تھی۔
خواتین مارچ کے انعقاد میں پیش پیش خاتون لائبہ زینب تھیں جو سوشل ایکٹیوسٹ اور وی لاگر ہیں۔ نواں شہر چوک میں 11 بجے کا وقت تھا۔ آہستہ آہستہ خواتین آنا شروع ہوئیں اور ساتھ ہی کچھ مرد بھی نظر آئے۔ کچھ نے فیس پینٹنگ بھی کرا رکھی تھی۔ ایک خاتون اپنے بیٹے کے ہمراہ پلے کارڈز اٹھائے نعرے لگاتی نظر آئیں اور ایک شخص جو بولنے اور سننے کی صلاحیت سے تو محروم تھا لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ پلے کارڈز اٹھائے۔ مارچ میں شرکت کے لیے پہنچا ہوا تھا۔
اس خواتین مارچ میں 18 سال قبل اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی بھی شریک تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر سماجی تنظیموں کی کارکن خواتین بھی شریک تھیں۔
شرکا میں صرف ایک خاتون 'میرا جسم میری مرضی' کا پلے کارڈ اٹھائے نظر آئی جب کہ ایک پلے کارڈ پر بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ بھی درج تھا۔ جب یہ خواتین مارچ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک شخص نے مارچ کے شرکا کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے جس پر شرکا مشتعل ہوئے اور موجود پولیس اہلکار متحرک ہوئے اور اس شخص کو وہاں سے دور لے گئے۔
اس ایک معمولی واقعہ کو ایک طرف رکھ دیں تو مجموعی طور پر ملتان بلکہ جنوبی پنجاب کا پہلا خواتین مارچ اختتام پذیر ہو گیا۔