میانمار انتخابات: سوچی نتائج کے بارے میں پر اعتماد

پیر کو انتخابات میں ڈالے جانے والے تین کروڑ بیس لاکھ ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ توقع ہے کہ آنگ سان سو چی کی قیادت میں این ایل ڈی سابق فوجی آمروں پر مشتمل حکمران جماعت یونین سولیڈیریٹی ڈویلپمنٹ پارٹی کو آسانی سے شکست دے دے گی۔

میانمار میں جمہوریت کی علامت آنگ سان سو چی نے کہا ہے کہ بظاہر ان کی جماعت اتوار کو ہونے والے تاریخی پارلیمانی انتخابات جیت گئی ہے مگر ابھی انہوں نے جیت کا اعلان کرنے سے گریز کیا ہے کیونکہ ووٹوں کی گنتی ابھی جاری ہے۔

یانگوں میں اپنی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی ’این ایل ڈی‘ کے ہیڈ کوارٹر کے باہر پیر کی صبح آنگ سان سو چی نے اپنے حامیوں کو بتایا کہ اگرچہ ابھی پارٹی کے جیتنے والے امیدواروں کو مبارکباد دینا قبل از وقت ہو گا، مگر لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حتمی نتیجہ کیا ہو گا۔

آنگ سان سو چی نے اپنے حامیوں سے یہ بھی کہا کہ وہ ہارنے والے امیدواروں کو اشتعال نہ دلائیں۔

سو چی کے خطاب سے قبل الیکشن حکام نے بغیر کوئی وجہ بتائے کہا تھا کہ وہ پہلے سرکاری نتیجے کا اعلان شام چھ بجے تک مؤخر کر رہے ہیں۔ اس سے قبل یہ اعلان نو بجے صبح کیا جانا تھا۔

روزنامہ ’میانمار ٹائمز‘ کے مطابق این ایل ڈی نے الیکشن کمیشن سے انتخابی ضوابط تبدیل کرنے پر باضابطہ شکایت کی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے مقاقی انتخابی عملے کو ہدایت کی ہے کہ وہ انتخابی نتائج مقامی اور ریاستی انتخابی حکام کو بھیجنے کی بجائے براہ راست دارالحکومت میں کمیشن کے دفاتر کو بھیجیں۔

پیر کو انتخابات میں ڈالے جانے والے تین کروڑ بیس لاکھ ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ توقع ہے کہ آنگ سان سو چی کی قیادت میں این ایل ڈی سابق فوجی آمروں پر مشتمل حکمران جماعت یونین سولیڈیریٹی ڈویلپمنٹ پارٹی کو آسانی سے شکست دے دے گی۔

صدارتی امیدوار سمجھے جانے والے حکمران جماعت کے پارلیمانی اسپیکر شوے مان نے پہلے ہی اپنے انتخابی حلقے میں این ایل ڈی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست تسلیم کر لی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کئی خامیاں تھیں اور میانمار کے عوام کو انتخابی نتائج کو غور سے دیکھنا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات مکمل طور پر جمہوری نہیں تھے کیونکہ کئی افراد کو شہریت نہ ہونے کے باعث حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا جن میں روہنگیا مسلمان بھی شامل ہیں۔

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے برما کے عوام کو مبارکباد دی اور کہا کہ انتخابات ’’برما کے عوام کی کئی دہائیوں کی جرات اور قربانیوں کا ثبوت ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اگرچہ انتخابات کو مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا مگر یہ ’’آگے کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔‘‘

میانمار کے صدر نے ہار کی صورت میں ملک میں اقتدار کی منتقلی کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ تعاون کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

صدر تھین شین نے جمعے کو انتخابی مہم ختم ہونے کے بعد کہا تھا کہ ’’حکومت اور فوج انتخابات کے نتائج کا احترام کرے گی۔‘‘

2011 میں سویلین حکومت کے قیام کے بعد یہ میانمار میں پہلا انتخاب ہے۔ اس سے ایک سال قبل آنگ سان سو چی کو گھر میں نظر بندی سے رہا کیا گیا تھا اور این ایل ڈی پر عائد پابندی ہٹا لی گئی تھی۔

1990 میں آنگ سان سو چی کی جماعت نے بھرپور کامیابی حاصل کی تھی مگر انہیں اقتداد میں آنے سے روک دیا گیا تھا۔