'افریقی یونین' نے کہا کہ اسلام پسندوں کو عبوری سیٹ اپ سے باہر رکھنے کے نتیجے میں مصر کے عدم استحکام کا شکار ہونے کا خدشہ مزید واضح ہوگیا ہے۔
واشنگٹن —
افریقی ممالک کی نمائندہ تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ اگر مصر کی عبوری حکومت نے اسلام پسندوں کو اقتدار میں شامل نہ کیا تو ملک کے خانہ جنگی کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔
افریقی یونین کی جانب سے مصر کے بحران پر تشکیل دیے جانے والے پینل کے سربراہ اور مالی کے سابق صدر ایلفا عمر کونار نے کہا ہے کہ عبوری انتظامیہ تمام جماعتوں کی نمائندہ حکومت تشکیل دینے کے اپنے عزم میں ناکام رہی ہے۔
ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں قائم 'افریقی یونین' کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام پسندوں کو عبوری سیٹ اپ سے باہر رکھنے کے نتیجے میں مصر کے عدم استحکام کا شکار ہونے کا خدشہ مزید واضح ہوگیا ہے۔
ایلفا عمر نے خبردار کیا کہ موجودہ عدم استحکام ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہےجس سے تشدد کی لہر میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں مصر کے منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی کی فوج کے ہاتھوں برطرفی کے اقدام کی 'افریقی یونین' نے سخت مذمت کی تھی۔
براعظم افریقہ کے 54 ممالک کے اتحاد نے مصر میں آنے والی تبدیلی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قاہرہ کی رکنیت معطل کردی تھی اور ملک میں آئینی اقتدار کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔
'افریقی یونین' مصر ی فوج کے اقدام پر اتنا سخت ردِ عمل ظاہر کرنے والی واحد بین الاقوامی تنظیم ہے۔ بیشتر عالمی اداروں اور مغربی و خلیجی عرب ممالک نے مصر میں آنے والی تبدیلی کا یا تو خیرمقدم کیا ہے یا پھر محتاط ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے فوجی اقدام کی مذمت سے گریز کیا ہے۔
'افریقی یونین' کے علاوہ خطے کی اہم اور ابھرتی ہوئی طاقت ترکی اور ایران نے بھی فوجی جنتا کے ہاتھوں اسلام پسند صدر محمد مرسی کی برطرفی کی سخت مذمت کی ہے۔
'افریقی یونین' کے اعلیٰ نمائندے کے بیان کے برعکس امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ مصر بظاہر رواں ماہ [آنے والی سیاسی تبدیلی کے بعد] ممکنہ خانہ جنگی سے بچ نکلا ہےاور امریکہ قاہرہ حکومت کو دی جانے والی امداد جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس پہلو کو مدِ نظر رکھے گا۔
امریکہ اور یورپی یونین نے مصر میں اقتدار کی تبدیلی کے عمل پر محض "تشویش" ظاہر کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے اور فوج کی جانب سے منتخب صدر کی برطرفی اور آئین کی معطلی کو "فوجی بغاوت" قرار دینے سے گریز کیا ہے۔
مصری فوج کے اقدام کو "فوجی بغاوت" قرار دینے کی صورت میں امریکہ قانونی طور پر مصر کو دی جانے والی امداد معطل کرنے اور اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا پابند ہوتا۔
افریقی یونین کی جانب سے مصر کے بحران پر تشکیل دیے جانے والے پینل کے سربراہ اور مالی کے سابق صدر ایلفا عمر کونار نے کہا ہے کہ عبوری انتظامیہ تمام جماعتوں کی نمائندہ حکومت تشکیل دینے کے اپنے عزم میں ناکام رہی ہے۔
ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں قائم 'افریقی یونین' کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام پسندوں کو عبوری سیٹ اپ سے باہر رکھنے کے نتیجے میں مصر کے عدم استحکام کا شکار ہونے کا خدشہ مزید واضح ہوگیا ہے۔
ایلفا عمر نے خبردار کیا کہ موجودہ عدم استحکام ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہےجس سے تشدد کی لہر میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں مصر کے منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی کی فوج کے ہاتھوں برطرفی کے اقدام کی 'افریقی یونین' نے سخت مذمت کی تھی۔
براعظم افریقہ کے 54 ممالک کے اتحاد نے مصر میں آنے والی تبدیلی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قاہرہ کی رکنیت معطل کردی تھی اور ملک میں آئینی اقتدار کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔
'افریقی یونین' مصر ی فوج کے اقدام پر اتنا سخت ردِ عمل ظاہر کرنے والی واحد بین الاقوامی تنظیم ہے۔ بیشتر عالمی اداروں اور مغربی و خلیجی عرب ممالک نے مصر میں آنے والی تبدیلی کا یا تو خیرمقدم کیا ہے یا پھر محتاط ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے فوجی اقدام کی مذمت سے گریز کیا ہے۔
'افریقی یونین' کے علاوہ خطے کی اہم اور ابھرتی ہوئی طاقت ترکی اور ایران نے بھی فوجی جنتا کے ہاتھوں اسلام پسند صدر محمد مرسی کی برطرفی کی سخت مذمت کی ہے۔
'افریقی یونین' کے اعلیٰ نمائندے کے بیان کے برعکس امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ مصر بظاہر رواں ماہ [آنے والی سیاسی تبدیلی کے بعد] ممکنہ خانہ جنگی سے بچ نکلا ہےاور امریکہ قاہرہ حکومت کو دی جانے والی امداد جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس پہلو کو مدِ نظر رکھے گا۔
امریکہ اور یورپی یونین نے مصر میں اقتدار کی تبدیلی کے عمل پر محض "تشویش" ظاہر کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے اور فوج کی جانب سے منتخب صدر کی برطرفی اور آئین کی معطلی کو "فوجی بغاوت" قرار دینے سے گریز کیا ہے۔
مصری فوج کے اقدام کو "فوجی بغاوت" قرار دینے کی صورت میں امریکہ قانونی طور پر مصر کو دی جانے والی امداد معطل کرنے اور اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا پابند ہوتا۔