ایران کے ایک معروف وکیل کو ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کی غرض سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر چینل چلانے پر 30 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ایران کی انقلابی عدالت نے امیر سالار داؤدی کو ‘‘ریاست مخالف پروپیگنڈہ کرنے’’ اور ‘‘عہدیداروں کی توہین کرنے’’ کے جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اسے 111 کوڑوں کی بھی سزا سنائی ہے۔
داؤدی کے وکیل وحید فرھانی کے مطابق وائس آف امریکہ کے فارسی ٹی وی کو انٹرویو دینے کے بعد داؤدی پر ایک حریف ملک کے ساتھ ساز باز کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے مرکز سے رواں سال اپریل میں بات کرتے ہوئے فرھانی نے خبردار کیا تھا کہ ان کے موکل پر حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایک گروپ قائم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
داؤدی کی اہلیہ طناز کلاھچیان نے، جو خود بھی وکیل ہیں، اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ان کے شوہر کو دی گئی سزا ‘‘غیر منصفانہ ہے’’، لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر اپنی سزا کے خلاف اپیل نہیں کریں گے۔
ایرانی قانون کے مطابق ٹیلی گرام سوشل میڈیا پر چینل قائم کرنے کی سزا 15 سال ہے۔ داؤدی نے’’وتھ آؤٹ ریٹچ’’ نامی چینل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔
جلا وطن ایرانی وکلا کے دستخطوں سے جاری ہونے والے ایک کھلے خط میں داؤدی کے خلاف فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پریشان کن قرار دیا ہے جو ان کے بقول قانونی ضابطوں کے خلاف ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ داؤدی کا شمار ایران کے قابل قدر وکلا میں ہوتا ہے۔
خط کے مطابق انہیں عدلیہ اور سیکورٹی اہل کاروں کا نشانہ بننے والوں، سیاسی قیدیوں اور مجبور افراد کا دفاع کرنے اور ایران کے سیاسی اور عدالتی نظام پر تنقید کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ خط پر حسین احمد نیاز، مسعود اختر تہرانی، محمد مصطفوی اور مہرانگیز کار کے دستخط ہیں۔
عدلیہ کے سیکورٹی اور انٹیلی جینس سینٹر کے اہل کاروں نے داؤدی کو نومبر میں گرفتار کیا تھا۔ ان کے موکلین میں کئی ایک سیاسی قیدی بھی شامل ہیں۔سیکورٹی اہل کاروں نے داؤدی کے مکان اور دفتر کی تلاشی بھی لی تھی اور ان کی بعض ذاتی اشیا کو قبصے میں لے لیا تھا۔
ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کے مطابق انہیں قبل ازیں بھی کئی مواقعوں پر حراست میں لیا گیا تھا اور انہیں تنبیہ کی گئی تھی کہ سیاسی طور پر حساس مقدمات کے بارے میں عوام کو کچھ نہ بتائیں۔
داؤدی ایران میں تیسرے ایسے وکیل ہیں جو اپنی پیشہ وارانہ قانونی فرائض کی ادائیگی پر جیل میں بند ہیں۔ ممتاز وکیل نسرین ستودہ اس وقت 38 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں اور ان کو دی جانے والی سزا کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ ایک اور وکیل محمد نجفی کو بھی تین سال کی قید کی سزا دی گئی۔
ایران میں کئی سیاسی قیدیوں کو ریاست کی طرف سے منظور شدہ وکلا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مبینہ طور پر مجبور کیا جاتا ہے۔