پاکستان میں سپریم جوڈیشل کونسل نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے آغا کے خلاف دائر صدارتی ریفرنسز میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنسز کی سماعت 12 جولائی کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں ہو گی۔
ریفرنس صدر مملکت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجوایا گیا تھا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس کے آغا پر اثاثے چھپانے کے مبینہ الزمات لگائے گئے ہیں۔
ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے ان ججز کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی اطلاعات کے تناظر میں سپریم کورٹ کے موجودہ جج نے صدر مملکت عارف علوی سے دو مرتبہ خطوط کے ذریعے رابطہ کر کے شکوہ کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
ریفرنس پر پہلی سماعت 14 جون جبکہ دوسری سماعت 2 جولائی کو ہوئی اور دونوں مواقع پر پاکستان بار کونسل کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔
سپریم کورٹ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا تیسرا اجلاس 12 جولائی کو طلب کر لیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل انور منصور کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جواب الجواب جمع کرائیں۔
ان دونوں جج صاحبان کے خلاف ریفرنسز قابل سماعت ہیں یا نہیں اس حوالے سے سپریم کورٹ کی طرف سے اب تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی کونسل ریفرنسز پر سماعت کرے گی۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس گلزار احمد کے علاوہ پشاور اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی کونسل میں شامل ہوں گے۔
2 جولائی کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کریم خان آغا نے دو صدارتی ریفرنس پر اپنا جواب سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروایا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز ہونے والے متوقع ججز میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے ریفرنس میں ہونے والی کارروائی پر دونوں سماعتوں پر ابتک کوئی باضابطہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات کی روشنی میں اب تک 2 ججز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے۔
پاکستان میں ججز کی بے ضابطگیوں اور دیگر شکایات درج کرانے کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے گزشتہ سال اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی جس کے بعد صدر مملکت نے اس کی منظوری دے دی تھی۔
اس سے قبل 1973 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
ان ریفرنسز کے حوالے سے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن نے اجتجاج کا اعلان کیا تھا اور ریفرنس کی پہلی سماعت کے موقع پر وکلا کی بڑی تعداد سپریم کورٹ میں موجود تھی اور ملک کے کئی شہروں میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ تاہم دو جولائی کو وکلا نے پرامن اجتجاج کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین امجد شاہ نے ان ریفرنسز کو خلاف قانون قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وکلا متحد ہیں اور ان ریفرنسز کے خلاف بھرپور اجتجاج کریں گے۔
وکلا ایکشن کمیٹی کے نام سے وکلا کا ایک گروپ بھی سامنے آیا ہے جنہوں نے اس ریفرنس کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ احتساب سب کے لیے ہے اور اس میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ وکلا ایکشن کمیٹی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔