اسلام آباد سے پشاور اور پھر طورخم تک کا سفر اگرچہ ہمارے لیے اس قدر مشکل تو نہیں تھا، لیکن اس راستے پر سفر کرنے والے افغان مہاجرین کے لیے شاید یہ راستہ اس قدر آسان نہ ہو کہ وہ ملک جہاں وہ کئی دہائیوں سے رہ رہے تھے، اب انہیں اس ملک کو چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے۔
غیر قانونی مہاجرین کی ملک سے بے دخلی کے حوالے سے حکومت نے ایک ماہ سے مہم شروع کر رکھی تھی اور اس بار کیے جانے والے اقدامات سے نظر آ رہا تھا کہ حکومت کسی رعایت کے موڈ میں نہیں ہے۔
علی الصبح اسلام آباد سے نکلے اور پشاور کے بعد مشہور کارخانو بازار کی طرف سے طورخم بارڈر کی طرف سفر شروع کیا۔ لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ روڈ بری طرح بلاک تھی، اس کی وجہ افغان مہاجرین کی واپسی تھی کیوں کہ یہاں سے ہی بڑی تعداد میں کنٹینرز اور ٹرک نظر آرہے تھے جن پر افغان مہاجرین سامان اور بیوی بچوں سمیت سوار تھے۔
ہر ٹرک اور کنٹینر پر چارپائیاں، بستر، برتن اور لکڑی کے ڈھیر نظر آرہے تھے۔
غیر قانونی طور پر رہنے والے بیشتر افغان مہاجرین خیموں میں رہتے رہے ہیں اور اب ان کی واپسی پر یہی خیمے اور لکڑی کے بانس ان کے مددگار ہوں گے جن کی مدد سے وہ افغانستان پہنچنے کے بعد فوری طور پر کسی بھی جگہ پر رہنے کا بندوبست کر سکیں گے۔
راستے میں جمرود بازار میں بھی معمول سے زیادہ رش نظر آیا اور پھر اس کے بعد پہاڑوں میں ہمارا سفر شروع ہوا جہاں بائیں جانب ملک بھر سے آنے والے تجارتی سامان کے ٹرالر نامعلوم کتنے دنوں سے کھڑے ہوئے تھے۔
یہ ٹرالرز کئی کئی میل لمبی قطاروں میں ایک ترتیب کے ساتھ کھڑے تھے جس کی وجہ سے دونوں جانب سے آنے والی ٹریفک ایک ہی لین استعمال کر رہی تھی، کئی مرتبہ حادثے کا خوف بھی ہوا لیکن احتیاط سے گاڑی چلاتے رہے اور پھر ہم لنڈی کوتل پہنچ گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لنڈی کوتل کے مرکزی بازار سے کئی کلومیٹر پہلے افغان مہاجرین کے ٹرالرز، کنٹینرز اور ٹرک کا آغٓاز ہو جاتا ہے اور بیشتر مقامات پر ٹرالرز دو، دو لینز بنا کر کھڑے تھے اور سڑک پر ٹریفک کے لیے بہت کم راستہ بچا تھا۔ تاہم ہم اس تمام صورتِ حال میں کوشش کرتے رہے اور جہاں آدھے گھنٹے کا سفر تھا وہاں دو گھنٹے سے زائد کا وقت لگا کر طورخم بارڈر کے قریب پہنچ گئے۔
طورخم بارڈر پر جگہ جگہ تعمیراتی کام جاری ہے اور نئے ٹرمینلز بنائے جا رہے ہیں، زیادہ تر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پھر بھی ہمت کر کے طورخم سرحد کے بالکل قریب جا پہنچے اور وہاں موجود ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو واپس جاتے دیکھا۔
کہیں ٹرالی والے ورکر اپنی خدمات پیش کر رہے تھے اور کہیں کابلی پلاؤ کے نام پر چنا پلاؤ بیچا جا رہا تھا۔ وہاں موجود بچے تمام حالات سے بے خبر کھیلنے میں مصروف تھے۔
ایک افغان خاندان تقریباً ایک درجن سے زائد بچوں کے ساتھ ایک چھوٹی گاڑی میں سوار تھا۔ ان سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تو اس خاندان کے سربراہ ایوب خان 40 سال پاکستان میں گزارنے کے بعد بھی اردو سے نابلد نکلے۔
تاہم ان کا 10 سالہ بیٹا احسان اللہ اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی بھی بول رہا تھا، معلوم ہوا کہ یہ لوگ سیالکوٹ شہر کی سبزی منڈی کے ساتھ ایک خیمے میں رہتے تھے اور اب پولیس کی طرف سے گرفتاری کی دھمکی کے بعد واپس افغانستان جا رہے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایوب خان کا کہنا تھا کہ "وہاں پر کچھ بھی نہیں ہے، صرف اللہ کے آسرے جارہے ہیں کہ وہاں کوئی مزدوری ملے گی تو بچوں کا پیٹ پال لیں گے۔"
احسان اللہ سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ "میں آج تک اسکول تو نہیں جا سکا البتہ مدرسے میں جاتا تھا اور دس پارے ختم کر لیے تھے، مجھے کرکٹ کا بہت شوق ہے اور راشد خان میرے پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔"
اس کے بعد ہم نے بارڈر کے بالکل قریب جا کر کام شروع کیا تو وہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک سیکیورٹی اہلکار نے آکر کہا کہ آپ کو اس کی اجازت نہیں ہے، پوچھا اجازت کہاں سے ملے گی؟ تو وہاں موجود ایک فوجی افسر سے بات کروائی جنہوں نے این او سی کے بغیر کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا اور ہم واپس چل دیے کیوں کہ موبائل سگنلز کے بغیر اس علاقے میں این او سی کے لیے رابطہ کرنا ناممکن تھا۔
اس کے بعد واپس لنڈی کوتل جانے کا فیصلہ کیا، راستے میں انگریز دور کی بنی ہوئی ریلوے لائن اور مختلف قلعے نظر آئے جو دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی بہترین حالت میں ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
لنڈی کوتل پہنچے تو سوچا کہ یہاں سکون سے کام کرسکیں گے، دو تین مقامی ٹی وی چینلز کی ڈی ایس این جیز کو دیکھ کر حوصلہ ہوا اور ایک بار پھر فوٹیج بنانا شروع کی تو ایک بار پھر سیکیورٹی اہلکار آ گئے اور کام سے روک دیا کہ جناب اجازت نہیں ہے۔
سمجھ اس بات کی نہیں آرہی تھی کہ افغان مہاجرین واپس جا رہے ہیں تو اس کی کوریج سے کیا فرق پڑے گا؟
لیکن ایک سینئر کی بات یاد آئی کہ ایسے مواقع پر خاموشی اور ان اہلکاروں کی بات ماننا ہی سب سے زیادہ مفید ہوتا ہے۔ لیکن اس دوران کیمرہ مین نے کچھ فوٹیجز بنا لی تھیں اور میرا اندازہ تھا کہ ہمارے کام کے لیے کافی ہوں گے، اس سے پہلے ہم ایک سٹینڈ اپ بھی کر چکے تھے لہذا واپسی کا فیصلہ کیا۔
لنڈی کوتل مین روڈ پر ایک بار پھر وہی ٹرالرز موجود تھے، افغان مہاجرین ان پر خاموشی سے اپنے وطن جانے کے لیے ٹرالرز کے نکلنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
ان مہاجرین کی آنکھوں میں دکھ تھا یا خوشی، اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کیوں کہ اپنے وطن جانے کی خوشی تو ہوتی ہے۔ لیکن وہ جگہ جو کسی کی جائے پیدائش ہو اور دہائیوں تک کوئی رہا ہو، وہاں سے جانا آسان تو نہیں ہوتا ہو گا،،، یہی سوچتے ہوئے ہم بھی پشاور کی طرف روانہ ہو گئے جہاں ایک بار پھر ٹرالرز اور ٹرکوں کا رش تھا۔