عراق: پرتشدد مظاہروں میں 50 افراد ہلاک، متعدد زخمی

عراق میں حکومت مخالف مظاہرے کئی روز سے جاری ہیں۔

حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کی تازہ لہر کے دوران تقریباً 50 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ حکام نے ہفتے کے روز بتایا کہ یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب مظاہرین نے حکومت اور نیم فوجی دستوں کے دفاتر کو نشانہ بنایا۔

اس ماہ ہونے والی ہلاکتوں کی کُل تعداد بڑھ کر 205 ہوگئی ہے، جس میں درجنوں مظاہرین اس وقت ہلاک ہوئے جب گذشتہ دو دنوں کے دوران سرکاری عمارات یا 'حشد الشعبی فورس' کے دھڑوں کے دفاتر کو نذر آتش کیا گیا۔

مظاہروں کا آغاز یکم اکتوبر کو ہوا، جب حکومت کی بدعنوانی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج کیا گیا، جب کہ احتجاج کا دوسرا سلسلہ جمعرات کی شام گئے شروع ہوا۔

حکام کے مطابق، جمعے کو ایک بار پھر بغداد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بغداد میں سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل پھینکے، جب کہ جنوبی شہر ناصریہ میں مشتعل مظاہرین کی ایران نواز ملیشیا کے دفتر میں گھسنے کے دوران ہونے والے تصادم میں بھی متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔

عراق میں انسانی حقوق کمشن کے مطابق، جمعے کی رات ہونے والی جھڑپوں میں دارالحکومت بغداد میں 8 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے پانچ آنسو گیس کے شیلز کا نشانہ بنے۔

اطلاعات کے مطابق، جنوبی شہر امارہ میں ہونے والی جھڑپوں میں حساس ادارے کے ایک افسر سمیت 'اسیب اہل الحق' ملیشیا کا کارکن بھی ہلاک ہو گئے۔

محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہروں میں اب تک 1800 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ جمعے کو مظاہرین میں شامل 16 سالہ علی محمد کا کہنا تھا کہ ہم روزگار، پانی، بجلی اور تحفظ چاہتے ہیں۔ یہ بنیادی ضروریات ہیں جو موجودہ حکومت پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مظاہرین نجف میں سراپا احتجاج ہیں۔

جمعے کو مظاہرین دارالحکومت بغداد کے مختلف مقامات پر جمع ہو گئے، جس کے بعد پولیس اور سیکورٹی اہل کار انہیں منتشر کرنے کے لیے پہنچ گئے۔

عراقی وزارتِ داخلہ کے ترجمان خالد الموہانہ کے مطابق، پرتشدد واقعات سیکورٹی فورسز کے 68 اہل کار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ بصرہ، موتھان، وسیت اور بابل میں غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

عراق کے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ احتجاجی مظاہرے جاری رہے تو حکومت مزید بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے اب تک 170 سے زائد افراد ہلاک جب کہ 6 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں۔

خیال رہے کہ عراق کا شمار تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ تاہم، شہریوں کا گلہ ہے کہ بدعنوانی اور دیگر مسائل کے بعد عراق کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ایران عراق کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ شہریوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ عراق کا امیر طبقہ ان ممالک کے ساتھ ملی بھگت کر کے عراقی عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

مظاہرین بغداد میں احتجاج کے لیے جمع ہیں۔

عراق میں احتجاج کا آغاز ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطے میں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی بھی جاری ہے۔ عراق دونوں ممالک کا اتحادی ہے۔ تاہم، یہاں ہزاروں امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔

امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کر کے اُس وقت کے صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ امریکی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ عراق میں صدر صدام کی حکومت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہی ہے جس سے دنیا کے امن کو خطرہ ہو سکتا ہے۔