اعتزاز کے دلائل پر قانونی و سیاسی حلقے متذبذب

اعتزاز احسن کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی اہلیت پر اعتراضات جہاں مقامی میڈیا میں اُن پر کڑی تنقید کی وجہ بنے ہوئے ہیں وہیں قانونی حلقوں میں بھی اس پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے.

پاکستان کی عدالت عظمٰی میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کےمقدمے کی سماعت آئندہ چند روز میں بظاہر اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتی ہے لیکن اب تک کی ہونے والی عدالتی کارروائی کے دوران وکیل صفائی اعتزاز احسن کے دلائل پر بعض قانونی ماہرین تعجب اور پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ملک کی نامور سیاسی و ادبی شخصیات میں شمار کیے جانے والے قانون دان اعتزاز احسن کا موقف ہے کہ سماعت کرنے والے جج صاحبان نے ہی وزیراعظم کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا تھا اس لیے وہ خود اس کی سماعت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ بھی مقدمے میں فریق کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے سات رکنی بینچ نےمنگل کو سماعت کے دوران اعتراز احسن سے کہا کہ وہ اپنے دلائل جمعرات تک مکمل کریں تاکہ عدالت دیگر زیر التواء مقدمات کی سماعت کر سکے لیکن وکیل صفائی نے اس کا بھی گول مول جواب دیا۔

’’میں تو چاہتا ہوں کہ آپ دیگر مقدمات پر توجہ دیں اور بے شک اس مقدمے کو ملتوی کر دیں۔ میں یہ یقین دہانی نہیں کرا سکتا کہ جمعرات تک اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔‘‘


اعتراز احسن نے کہا کہ ان کے دلائل کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم گیلانی کے خلاف مقدمہ نا چلایا جائے بلکہ ان کا موقف ہے کہ اس کی سماعت مجاذ عدالت کرے۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو میں بھی اُنھوں نے اس موقف کو دہرایا۔

’’آئین کا تقاضا ہے کہ وہ جج صاحبان جنہوں نے از خود شو کاز نوٹس کا اجراء کیا کہ وہ ٹرائل (مقدمے کی سماعت) کے لیے کسی دوسرے بینچ کو یہ کیس بھیج دیں تاکہ بلاتاخیر یہ مقدمہ چلایا جا سکے‘‘۔

لیکن اعتزاز احسن کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی اہلیت پر اعتراضات جہاں مقامی میڈیا میں اُن پر کڑی تنقید کی وجہ بنے ہوئے ہیں وہیں قانونی حلقوں میں بھی اس پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

معروف قانون دان بابر ستار کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ کسی کا ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ایک عدالتی حکم کو نافذ کرنے کا عمل ہے۔

انھوں نے کہا کہ اعتزاز احسن آئین کی جس شک کا سہارا لے کر دلائل دے رہے ہیں وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جو بینچ مقدمہ سنے وہ متعصب نہ ہو اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صفائی کا پورا موقع دیا جائے جو سب ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔

’’اگر ان کا موقف تسلیم کرلیا جائے تو پھر جج اور عدالت کا فرق ختم ہو جائےگا۔ عدالت تو ایک قانون کو نافذ کرنے کا نظام ہے اور ظاہر ہے اس میں جج بیٹھتے ہیں لیکن جج اپنے ذاتی مفاد میں نہیں بیٹھتے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس بھی مقدمے میں کسی جج نے اب تک ازخود نوٹس لیا وہ اُس نے ذاتی مفاد میں کیا اور وہ غیر جانبدار فورم نہیں رہتا اس لیے مجھے ان کی دلیل میں زیادہ وزن نظر نہیں آتا۔‘‘

بابر ستار نے کہا کہ اگر یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ عدالتوں کے فیصلوں کے نفاذ کرانے میں ججوں کا کوئی ذاتی مفاد ہے تو اس سے پاکستان کے سارے آئین کا ڈھانچہ متاثر اور عدالتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔

’’اگر آپ شفافیت کے نام پہ اتنی تکنیکی نوعیت کے مسائل کو متعارف کرا دیں تو پھرعدالتی معاملات کو آگے بڑھانے میں مزید تاخیر ہوگی، اپیلوں میں مزید اضافہ ہوگا اور بہت سارے لوگ اسی وجہ سے چھوٹ بھی جائیں گے۔‘‘

وزیر اعظم گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کا تعلق سپریم کورٹ کے اس حکم نامے سے ہے جس میں قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کو کالعدم قرار دینے کے بعد حکومت کو اس فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا پابند کیا گیا تھا۔

لیکن وزیر اعظم گیلانی کی انتظامیہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے انکاری ہے۔ این آراو کے تحت جن ہزاروں افرد کے خلاف ختم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ان میں صدر آصف علی زرداری بھی شامل ہیں اور حکومت کے نمائندوں بشمول وزیراعظم اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ پاکستان کا آئین صدر مملکت کے خلاف ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا تاوقتیکہ وہ اس عہدے سے سبکدوش نہیں ہوتے۔

اعتزاز حسن بھی مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دلائل میں اسی نکتے پر زور دے رہے ہیں۔