جمعے کے سربراہی اجلاس کے افتتاح میں شی موجود نہیں تھے لیکن بائیڈن نے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے ساتھ اجلاس میں شرکت کی ۔
صدر بائیڈن اور صدر شی ہفتے کے روز سرکاری طور پر اپنی آخری بالمشافہ ملاقات کریں گے ۔
بائیڈن نے ایشیا میں اپنے کلیدی اتحادیوں ، جاپان اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ دنیااہم سیاسی تبدیلی کے ایک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ، ’’ سہ طرفہ شراکت داری قائم رہنے کےلیے تشکیل ہوئی تھی ۔ یہ میری امید اور توقع ہے ۔‘‘
ایپک سر براہی اجلاس کے موقع پر الگ سے سی ای اوز کی ایک میٹنگ کے لیے تیار کی گئی ایک تقریر میں شی نے عالمی معیشت کے ٹکڑے ہونے کے خلاف بھی انتباہ کیا ۔
بائیڈن نے جوہری طور پر مسلح پیانگ یانگ کی جانب سے فوجیوں کو یوکرین میں لڑنے کے لییے بھیجنے کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کے دوران شمالی کوریا کے روس کے ساتھ خطرناک اور عدم استحکام پیدا کرنے والے تعاون سے خبردار کیا ۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا کہ ہفتے کو ۔بائیڈن ملاقات اس پیش رفت کو اجاگر کرنے کا ایک موقع ہوگی جو ہم نےباہمی تعلقات کے فروغ اور تبدیلی کے اس نازک وقت میں حالات سے نمٹنے میں کی ہے۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن اور شی جن پنگ کی ایک برس بعد ملاقات، کیا پیش رفت ہو سکتی ہے؟ایپک ، جو کہ 1989 میں علاقائی تجارت کوآزاد بنانے کے مقصد کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا، عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 60 فیصد اور عالمی تجارت کے 40 فیصد سے زیادہ کی نمائندگی کرتا ہے۔
ایپک سربراہی اجلاس میں چلی، کینیڈا، آسٹریلیا اور انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک بھی شریک ہیں۔ روس بھی ایپیک کا حصہ ہے لیکن صدر ولادیمیر پوٹن غیر حاضر تھے۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔